پیا ملن کی چاہ

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ہرگز نہیں دیکھ سکتے. دنیا و آخرت کا ذکر نہیں ہے
بھائی انتہائی سادہ سی بات ہے نہ دیکھ سکنے کی وجہ ہے کہ ہماری آنکھ میں اللہ پاک کی تجلی کو برداشت کرنے کی طاقت ہی نہیں ہے اور اگر اللہ جو کہ علی کل شی ءٍ قدیر ہے اس کی طاقت کو بڑھا دیں
اس دنیا کو اللہ پاک نے انتہائی محدود بنایا ہے جس میں صرف اللہ پاک کو دیکھنا ہی نہیں بلکہ بہت سی اور چیزیں بھی ناممکنات کے درجے میں ہیں
 

فاخر رضا

محفلین
بھائی انتہائی سادہ سی بات ہے نہ دیکھ سکنے کی وجہ ہے کہ ہماری آنکھ میں اللہ پاک کی تجلی کو برداشت کرنے کی طاقت ہی نہیں ہے اور اگر اللہ جو کہ علی کل شی ءٍ قدیر ہے اس کی طاقت کو بڑھا دیں
اس دنیا کو اللہ پاک نے انتہائی محدود بنایا ہے جس میں صرف اللہ پاک کو دیکھنا ہی نہیں بلکہ بہت سی اور چیزیں بھی ناممکنات کے درجے میں ہیں
اتنی سادہ بات جو آپ کے دماغ میں آگئی، یہ خدا کا مطلب نہیں ہے
 

فاخر رضا

محفلین
خدا کی صفات کی بات کی جاسکتی ہے، ذات کی نہیں
لَيْسَ كَمِثْلِ۔هٖ شَيْءٌ ۖ وَّهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْ۔رُ
ترجمہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا
ک اور مثل دونوں کے معانی ایک ہی ہیں اور اس سے پہلے لیس ہے
سمجھ نہیں آتا
(کیسے اسے شی کی مثل بنا دیا کہ دیکھا جاسکے.)
 

یاسر شاہ

محفلین
یہاں ایک وضاحت ضرور کیجیے کہ یہاں دیکھنے، نظارہ کرنے وغیرہ سے آپ کی مراد سچ مچ اسی مادی آنکھ سے دیکھنا ہے یا آپ کچھ اور کہ رہے ہیں. خدا کوئی جسم نہیں رکھتا کہ اسے مادی آنکھ سے دیکھا جاسکے. وہ جسم کا محتاج نہیں. وہ غنی ہے.
قرآن مجید کی آیت ہے
لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ٘-وَ هُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَۚ-وَ هُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ
1) لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ٘-وَ هُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَۚ-وَ هُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ(۱۰۳)

ترجمہ: آنکھیں اُسے احاطہ نہیں کرتیں اور سب آنکھیں اس کے احاطہ میں ہیں اور وہی ہے نہایت باطن پورا خبردار۔

2)… ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ نَّاضِرَةٌۙ(۲۲) اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ‘‘ (القیامہ:۲۳،۲۲)

ترجمہ:کچھ چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے، اپنے رب کو دیکھتے ہوں گے۔

پہلی آیت میں ادراک کی نفی ہے خواہ دنیا میں ہو یا آخرت میں اور دوسری آیت میں آخرت میں اللہ جل شانہ کی رویت کا اثبات ہے ۔ادراک و رویت میں فرق ہے۔ اِدراک کے معنیٰ ہیں کہ دیکھی جانے والی چیز کی تمام طرفوں اور حدوں پر واقف ہونا کہ یہ چیز فلاں جگہ سے شروع ہو کر فلاں جگہ ختم ہوگئی جیسے انسان کو ہم کہیں کہ سر سے شروع ہوکر پاؤں پر ختم ہوگیا، اِسی کو اِحاطہ (گھیراؤ) کہتے ہیں۔ اِدراک کی یہی تفسیر حضرت سعید بن مُسیَّبْ اور حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے منقول ہے اور جمہور مفسرین اِدراک کی تفسیر اِحاطہ سے فرماتے ہیں اور اِحاطہ اسی چیز کا ہوسکتا ہے جس کی حدیں اور جہتیں ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے لئے حد اور جہت محال ہے تو اس کا ادراک واحاطہ بھی ناممکن ۔ اِدراک اور رُویت میں فرق نہ کرنے سے کچھ لوگ اس گمراہی میں مبتلا ہوگئے کہ انہوں نے دیدارِ الٰہی کو محالِ عقلی قرار دے دیا۔(نقل )
 

یاسر شاہ

محفلین
ایک اور آیت اس باب میں دلیل ہے اور وہ ہے کفار کے بارے میں:

كَلَّاۤ اِنَّهُمْ عَنْ رَّبِّهِمْ یَوْمَىٕذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَؕ(۱۵)

ترجمہ:

ہاں ہاں بے شک وہ اس دن اپنے رب کے دیدار سے محروم ہوں گے۔

اس آیت کے سیاق و سباق میں کفار کا تذکرہ ہو رہا ہے اور بطور وعید دیدار سے محرومی کو بیان کیا گیا ہے۔چنانچہ یہی آیت عکس پہ دلیل ہے اور بشارت ہے کہ مسلمانوں سے حجاب نہ ہوگا اور وہ دیدار سے محروم نہ ہوں گے۔اس آیت سے حضرت مولانا شاہ حکیم اختر صاحب ایک عجیب نکتہ نکالتے تھے کہ اس آیت سے پتا چلتا ہے اللہ جل شانہ کی عام محبوبانہ شان کا مطلب کہ کافر کے دل میں بھی اللہ جل شانہ کی محبت موجود ہے لیکن دبی ہوئی ہے تبھی تو اپنا مکھ نہ دکھانے کا تذکرہ بطور وعید کر رہے ہیں ورنہ آج کل کا حکمران مثلا" عمران خان ہی کہہ دے کہ فلاں کام کرو ورنہ ہم اپنا چہرہ نہ دکھائیں گے تو لوگ یہی کہیں گے کہ شکل گم کرو ہم نہیں کرتے۔
اسی کو میں نے کہا تھا :

ایسی ہستی خدا کی ہستی ہے
دل کی گہرائیوں میں بستی ہے

ہو مسلمان چاہے کافر ہو
خلق دیدار کو ترستی ہے

اللہ جل شانہ ہمیں اپنا دیدار نصیب کرے۔آمین
 

یاسر شاہ

محفلین
اس کے علاوہ بہت سی احادیث اس باب میں موجود ہیں جن میں سے تین صحیح نقل کرتا ہوں

1)… مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ جنتیوں کے جنت میں داخل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’کیا تم چاہتے ہو کہ تم پر اور زیادہ عنایت کروں ؟ وہ عرض کریں گے: یارب! عَزَّوَجَلَّ کیا تو نے ہمارے چہرے سفید نہیں کئے؟ کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں فرمایا ؟ کیا تو نے ہمیں دوزخ سے نجات نہیں دی ؟ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’ پھرپردہ اٹھا دیا جائے گا تو دیدارِ الٰہی انہیں ہر نعمت سے زیادہ پیارا ہوگا۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب اثبات رؤیۃ المؤمنین فی الآخرۃ ربہم سبحانہ وتعالی، ص۱۱۰، الحدیث: ۲۹۷(۱۸۱))


(2)…حضرت جریر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ہم سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر تھے کہ رات کے وقت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے چاند کی طرف دیکھ کر فرمایا: ’’عنقریب تم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھو گے جیسے اس چاندکو دیکھتے ہو اور اسے دیکھنے میں کوئی دقت محسوس نہ کرو گے۔ (بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فضل صلاۃ العصر، ۱ / ۲۰۳، الحدیث: ۵۵۴)


(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ُسے روایت ہے، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھیں گے؟ ارشاد فرمایا: کیا دوپہر کے وقت جب بادل نہ ہوں تو سورج کو دیکھنے میں تمھیں کوئی تکلیف ہوتی ہے؟ عرض کی: نہیں۔ ارشاد فرمایا: چودھویں رات کو جب بادل نہ ہوں تو کیا تمھیں چاند دیکھنے سے کوئی تکلیف ہوتی ہے؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: نہیں ، ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، تمھیں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھنے میں صرف اتنی تکلیف ہو گی جتنی تکلیف تم کو سورج یا چاند دیکھنے سے ہوتی ہے۔ (مسلم، کتاب الزہد والرقائق، ص۱۵۸۷، الحدیث: ۱۶(۲۹۶۸))
 

یاسر شاہ

محفلین
) سورۃ الاعراف (مکی — کل آیات 206)
(143) سورہ اعراف
اور جب موسٰی ہمارے مقرر کردہ وقت پر آئے اور ان کے رب نے ان سے باتیں کیں تو عرض کیا کہ اے میرے رب مجھے دکھا کہ میں تجھے دیکھوں! فرمایا کہ تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتا لیکن تو پہاڑ کی طرف دیکھتا رہ اگر وہ اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا تو تو مجھے دیکھ سکے گا، پھر جب اس کے رب نے پہاڑ کی طرف تجلی کی تو اس کو ریزہ ریزہ کر دیا اور موسٰی بے ہوش ہو کر گر پڑے، پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کی کہ تیری ذات پاک ہے میں تیری جناب میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا یقین لانے والا ہوں۔
یہاں بھی نفی فاعل کے لحاظ سے ہے کہ تو مجھے نہیں دیکھ سکتا، نفی فعل کے لحاظ سے نہیں کہ دیکھنا ممکن ہی نہیں۔
 
Top