یہاں ایک وضاحت ضرور کیجیے کہ یہاں دیکھنے، نظارہ کرنے وغیرہ سے آپ کی مراد سچ مچ اسی مادی آنکھ سے دیکھنا ہے یا آپ کچھ اور کہ رہے ہیں. خدا کوئی جسم نہیں رکھتا کہ اسے مادی آنکھ سے دیکھا جاسکے. وہ جسم کا محتاج نہیں. وہ غنی ہے.
قرآن مجید کی آیت ہے
لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ٘-وَ هُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَۚ-وَ هُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ
1) لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ٘-وَ هُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَۚ-وَ هُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ(۱۰۳)
ترجمہ: آنکھیں اُسے احاطہ نہیں کرتیں اور سب آنکھیں اس کے احاطہ میں ہیں اور وہی ہے نہایت باطن پورا خبردار۔
2)… ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ نَّاضِرَةٌۙ(۲۲) اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ‘‘ (القیامہ:۲۳،۲۲)
ترجمہ:کچھ چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے، اپنے رب کو دیکھتے ہوں گے۔
پہلی آیت میں ادراک کی نفی ہے خواہ دنیا میں ہو یا آخرت میں اور دوسری آیت میں آخرت میں اللہ جل شانہ کی رویت کا اثبات ہے ۔ادراک و رویت میں فرق ہے۔ اِدراک کے معنیٰ ہیں کہ دیکھی جانے والی چیز کی تمام طرفوں اور حدوں پر واقف ہونا کہ یہ چیز فلاں جگہ سے شروع ہو کر فلاں جگہ ختم ہوگئی جیسے انسان کو ہم کہیں کہ سر سے شروع ہوکر پاؤں پر ختم ہوگیا، اِسی کو اِحاطہ (گھیراؤ) کہتے ہیں۔ اِدراک کی یہی تفسیر حضرت سعید بن مُسیَّبْ اور حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے منقول ہے اور جمہور مفسرین اِدراک کی تفسیر اِحاطہ سے فرماتے ہیں اور اِحاطہ اسی چیز کا ہوسکتا ہے جس کی حدیں اور جہتیں ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے لئے حد اور جہت محال ہے تو اس کا ادراک واحاطہ بھی ناممکن ۔ اِدراک اور رُویت میں فرق نہ کرنے سے کچھ لوگ اس گمراہی میں مبتلا ہوگئے کہ انہوں نے دیدارِ الٰہی کو محالِ عقلی قرار دے دیا۔(نقل )