پیرانِ پیر کے معنی پیروں کا پیر یا ایک پیر کے کئی پیر؟

آپ کے اس سوال اور تحقیقی جوابات سے مجھ جیسوں کو بھی اس علمی خزانے سے فیضیاب ہونا میسر آگیا۔ سارے صاحب علم حضرات کا بہت بہت شکریہ
 
آپ سب سے (خصوصاً برادران خالد محمود چوہدری اور سید ذیشان ) سے سیکھنے کے بعد مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا ہے۔

فارسی تراکیب میں قلبِ اضافت کے قائدے سے اضافتِ مقلوب بنائی جاتی ہے اور یہی قائدہ اردو میں بھی فارسی تراکیب بناتے ہوئے قابلِ استعمال ہے۔
یوں "پیران پیر" (نون کے نیچے زیر کے بغیر) اضافت مقلوب ہے جو قلبِ اضافت کے قاعدے سے بنا ہے جس میں مضاف الیہ (پیران) پہلے آ گیا ہے اور مضاف (پیر) بعد میں اور اس میں اضافت کی زیر حذف ہو گئی ہے۔

پیران پیر: پِیروں کا پِیر۔ اسے پیرانِ پیر (پی را نے پیر ) پڑھنا غلط ہے کیونکہ اس کا مطلب ایک پیر کے کئی پیر بنتا ہے جو غلط ہے۔

اضافتِ مقلوب کی کچھ اقسام (جو اضافت کی زیر کے بغیر پڑھی اور لکھی جائیں گی):
  1. ریگ ماہی: ریت کی مچھلی۔ اسے ریگِ ماہی (رے گے ما ہی) پڑھنا غلط ہے کیونکہ یوں اس کے معنی مچھلی کی ریت بن جائیں گے جو محمل ہے۔
  2. شادی مرگ: خوشی سے مر جانا۔ اسے شادیِ مرگ (شا دیے مرگ) پڑھنا غلط ہے کیونکہ اس طرح اس کا مطلب موت کے باعث خوش ہونا بنتا ہے جو بے معنی ہے۔
  3. پس منظر: پیچھے کا منظر۔ اسے پسِ منظر (پسے من ظر) پڑھنا غلط ہے کیونکہ یوں اس کا مطلب منظر کے پیچھے بنے گا جو درست نہیں۔

قلبِ اضافت
قلب اضافت
( قَلْبِ اِضافَت )
{ قَل + بے + اِضا + فَت }
( عربی )
تفصیلات
عربی زبان سے ماخوذ اسم 'قلب' کے ساتھ کسرہ اضافت لگانے کے بعد عربی زبان سے ہی اسم 'اضافت' ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٩٧٣ء کو "اردو نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔
معانی
اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - قواعد اضافت کا الٹا ہونا یعنی مضاف اور مضاف الیہ کی ترتیب کا بدل جانا۔
"ڈاکٹر صاحب یہ مانتے ہیں کہ شاہ رخ، دولت کدہ وغیرہ مرکبات میں قلب اضافت نہیں ہوا۔" ( ١٩٧٣ء، اردو نامہ، کراچی، ٤٤، ٣٣ )

بہت شکریہ جناب مُررررررررررررررررررررررررررررررشَدّدددددددددددددددددددددددددددد
بہت دعائیں
 

یاسر شاہ

محفلین
آپ سب سے (خصوصاً برادران خالد محمود چوہدری اور سید ذیشان ) سے سیکھنے کے بعد مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا ہے۔

فارسی تراکیب میں قلبِ اضافت کے قائدے سے اضافتِ مقلوب بنائی جاتی ہے اور یہی قائدہ اردو میں بھی فارسی تراکیب بناتے ہوئے قابلِ استعمال ہے۔
یوں "پیران پیر" (نون کے نیچے زیر کے بغیر) اضافت مقلوب ہے جو قلبِ اضافت کے قاعدے سے بنا ہے جس میں مضاف الیہ (پیران) پہلے آ گیا ہے اور مضاف (پیر) بعد میں اور اس میں اضافت کی زیر حذف ہو گئی ہے۔

پیران پیر: پِیروں کا پِیر۔ اسے پیرانِ پیر (پی را نے پیر ) پڑھنا غلط ہے کیونکہ اس کا مطلب ایک پیر کے کئی پیر بنتا ہے جو غلط ہے۔

اضافتِ مقلوب کی کچھ اقسام (جو اضافت کی زیر کے بغیر پڑھی اور لکھی جائیں گی):
  1. ریگ ماہی: ریت کی مچھلی۔ اسے ریگِ ماہی (رے گے ما ہی) پڑھنا غلط ہے کیونکہ یوں اس کے معنی مچھلی کی ریت بن جائیں گے جو محمل ہے۔
  2. شادی مرگ: خوشی سے مر جانا۔ اسے شادیِ مرگ (شا دیے مرگ) پڑھنا غلط ہے کیونکہ اس طرح اس کا مطلب موت کے باعث خوش ہونا بنتا ہے جو بے معنی ہے۔
  3. پس منظر: پیچھے کا منظر۔ اسے پسِ منظر (پسے من ظر) پڑھنا غلط ہے کیونکہ یوں اس کا مطلب منظر کے پیچھے بنے گا جو درست نہیں۔

قلبِ اضافت
قلب اضافت
( قَلْبِ اِضافَت )
{ قَل + بے + اِضا + فَت }
( عربی )
تفصیلات
عربی زبان سے ماخوذ اسم 'قلب' کے ساتھ کسرہ اضافت لگانے کے بعد عربی زبان سے ہی اسم 'اضافت' ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٩٧٣ء کو "اردو نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔
معانی
اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - قواعد اضافت کا الٹا ہونا یعنی مضاف اور مضاف الیہ کی ترتیب کا بدل جانا۔
"ڈاکٹر صاحب یہ مانتے ہیں کہ شاہ رخ، دولت کدہ وغیرہ مرکبات میں قلب اضافت نہیں ہوا۔" ( ١٩٧٣ء، اردو نامہ، کراچی، ٤٤، ٣٣ )


محترم فاتح صاحب ! مگر اس کا کیا کریں کہ نور اللغات میں تو پیرانِ پیر درج ہےنون مکسورکے ساتھ اور بقول آپ کے اس میں غلط العوام کا اندراج نہیں کیا جاتا-
http://archive.org/stream/nrullught02nayy#page/n154/mode/1up

اور پھر فرہنگ آصفیہ جیسی مستند ترین لغت میں یہ اضافتِ مقلوب کیوں نہیں ؟

https://archive.org/stream/FarhangAsifiya/00511_Farhang_Asifiya_1#page/n591/mode/2up


اس اضافتِ مقلوبی کی رواجی حیثیت کیا ہے برعکس دیگر مرکباتِ اضافی مقلوبی کے کہ زبان زدِ عام ہیں'خواہ زبانِ قلم ہو یا زبانِ دہن مَثَلاً

خدائے ناؤ سے ناخدا
آبِ شر سے شراب
آبِ خر سے خراب

جبکہ اسے جہاں پڑھا اور سنا پیرانِ پیر ہی پایا-

یاسر
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
محترم فاتح صاحب ! مگر اس کا کیا کریں کہ نور اللغات میں تو پیرانِ پیر درج ہےنون مکسورکے ساتھ اور بقول آپ کے اس میں غلط العوام کا اندراج نہیں کیا جاتا-
http://archive.org/stream/nrullught02nayy#page/n154/mode/1up
نور اللغات کا حوالہ میں اوپر درج کر چکا ہوں اور ساتھ ہی فیروز اللغات کا بھی۔ اغلاط سے پاک تو کچھ بھی نہیں۔
فرہنگ و لغات میں غلط العوام درج نہ کیے جانے سے مراد یہ تھی کہ جیسے غلط العام کو فصیح قرار دے کر اسے باقاعدہ ایک درست لفظ یا اصطلاح کے طور پر لغات و فرہنگ میں شال کر لیا جاتاہے اس کے برعکس طرح غلط العوام کو
شامل نہیں کیا جاتا۔ ہاں! بطور کتابت کی یا مولف کی فہم کی غلطی کے باعث اگر شامل ہو جائے تو الگ بات ہے۔

اور پھر فرہنگ آصفیہ جیسی مستند ترین لغت میں یہ اضافتِ مقلوب کیوں نہیں ؟
https://archive.org/stream/FarhangAsifiya/00511_Farhang_Asifiya_1#page/n591/mode/2up
ہر لغت میں ہر لفظ شامل نہیں ہوتا۔ کئی الفاظ شامل ہونے سے بچ جاتے ہیں۔ خواہ وہ نور اللغات ہو یا فرہنگ آصفیہ یا فیروز اللغات، سب میں ہی کچھ نہ کچھ رہ جاتا ہے۔ لہٰذا یہ سوال کہ فرہنگ آصفیہ میں یہ ترکیب کیوں شامل نہیں، اس بات پر ہر گز دلیل نہیں کہ اس کا استعمال غلط ہے۔
ہمارے محمد امین بھائی کی محبت سے آج کل مشتاق یوسفی کی شامِ شعرِ یاراں ہمارے سرہانے دھری ہے سو اسی کو کھول کر اس کے شروع کے پانچ سات صفحات پر نظر مارنے سے چند الفاظ سامنے آئے جو آپ کی خدمت میں اس غرض سے پیش کر رہا ہوں کہ آپ انھیں فرہنگ آصفیہ، نور اللغات، فیروز اللغات، وغیرہ میں تلاش کرنے کی کوشش کیجیے اور پھر یہی سوال خود سے (یا مشتاق یوسفی صاحب سے کہ وہ بھی آپ کے کراچی میں ہی سکونت پذیر ہیں) پوچھیے گا کہ "فلاں فلاں فرہنگ و لغت جیسی مستند ترین لغات میں یہ لفظ کیوں نہیں؟"
زیٹیا
نسینی
نپوتا
انگول
بوک بکرا
کنمناہٹ
رسمساہٹ
تفلسف

برعکس دیگر مرکباتِ اضافی مقلوبی کے کہ زبان زدِ عام ہیں'خواہ زبانِ قلم ہو یا زبانِ دہن مَثَلاً
خدائے ناؤ سے ناخدا
آبِ شر سے شراب
آبِ خر سے خراب
ارے قبلہ، ناخدا کی حد تک تو سوچا جا سکتا ہے کہ یہ اضافتِ مقلوبی ہو لیکن شراب اور خراب کے متعلق تو سوچنا بھی حرام ہے :laughing:
آب فارسی کا لفظ ہے جبکہ شراب اور خراب براہ راست عربی مادوں شَرَبَ اور خَرَبَ سے خالصتاً عربی نحو کے قاعدے سے بنے ہیں۔ یہ شر اور آب اور خر اور آب کے مرکبات نہیں ہیں۔

اس اضافتِ مقلوبی کی رواجی حیثیت کیا ہے

جبکہ اسے جہاں پڑھا اور سنا پیرانِ پیر ہی پایا-
میرا بھی یہی حال تھا اب سے پہلے۔۔۔ آیندہ آپ جب کہیں سنیں تو پڑھنے یا بولنے والے کی اصلاح کر دیجیے گا۔ :)
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
ارے قبلہ، ناخدا کی حد تک تو سوچا جا سکتا ہے کہ یہ اضافتِ مقلوبی ہو لیکن شراب اور خراب کے متعلق تو سوچنا بھی حرام ہے :laughing:
آب فارسی کا لفظ ہے جبکہ شراب اور خراب براہ راست عربی مادوں شَرَبَ اور خَرَبَ سے خالصتاً عربی نحو کے قاعدے سے بنے ہیں۔ یہ شر اور آب اور خر اور آب کے مرکبات نہیں ہیں۔

ہنسنے کا ایک اور محل پیش خدمت :

آبِ برف سے برفاب
آبِ پیش سے پیشاب
آبِ تیز سے تیزاب

اب اجازت دیجیے تو میں بھی ہنس لوں :

شرب یشرب سے شراب
خرب یخرب سے خراب
ضرب یضرب سے ضراب
فعل یفعل سے فعلاب :-(


معذرت خواہ ہوں 'جانتا ہوں زبانوں میں قیاس ہر جگہ نہیں چلتا-مگر تعلیمات کا نتیجہ محض مفروضوں پر قایم نہیں کیا جا سکتا -میں بھی تحقیق کرتا ہوں آپ بھی تحقیق کریں :پیران پیر 'شراب 'خراب کے ضمن میں-اگر آپ نے کوئی سند فراہم کر دی تو میرا اپنا شعرہے :

تاویل پہ تاویل کیے جاتے ہو بیکار
احساس ندامت بھی کوئی چیز ہے پیارے !

یاسر
 

فاتح

لائبریرین
اردو کے علماء کے درمیان بیٹھ کر مفت میں ہم بھی کچھ علم کی خوشبو سے استفادہ کر رہے ہیں

علماءِ کرام شکریہ قبول فرمائیں۔
میں اردو کا عالم ہر گز نہیں ہوں۔۔۔ میں نے تو اردو کی کوئی کتاب بطور نصاب آخری مرتبہ بارھویں جماعت میں پڑھی تھی اور وہ تھی۔
 

فاتح

لائبریرین
آبِ برف سے برفاب
آبِ پیش سے پیشاب
آبِ تیز سے تیزاب
مندرجہ بالا تراکیب فارسی ہیں لہٰذا ان میں اضافتِ مقلوب دیکھنا ممکن ہے

شرب یشرب سے شراب
خرب یخرب سے خراب
ضرب یضرب سے ضراب
فعل یفعل سے فعلاب :-(
مندرجہ بالا عربی مادے ہیں۔۔۔ ان میں شرب، خرب، ضرب اور فعل ثلاثی مجرد ہیں۔۔۔
اور ان سے شراب، خراب، ضراب اور فعال بن سکتے ہیں۔
فعلاب غلط ہے
 

باباجی

محفلین
بات بڑی واضح ہے کہ
اک نکتے نے محرم سے مجرم بنادیا
بظاہر ایک غیر واضح غلطی کو درست کرنے سے کتنی اہم معلومات حاصل ہوگئیں
بہت شکریہ
 
مندرجہ بالا تراکیب فارسی ہیں لہٰذا ان میں اضافتِ مقلوب دیکھنا ممکن ہے


مندرجہ بالا عربی مادے ہیں۔۔۔ ان میں شرب، خرب، ضرب اور فعل ثلاثی مجرد ہیں۔۔۔
اور ان سے شراب، خراب، ضراب اور فعال بن سکتے ہیں۔
فعلاب غلط ہے

"فعلثلاثی مجرد" اس ظالم پر دو تین لیکچر میں نے بھی جھیلے تھے 13،14 سال قبل۔
 
Top