آپ سب سے (خصوصاً برادران خالد محمود چوہدری اور سید ذیشان ) سے سیکھنے کے بعد مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا ہے۔
فارسی تراکیب میں قلبِ اضافت کے قائدے سے اضافتِ مقلوب بنائی جاتی ہے اور یہی قائدہ اردو میں بھی فارسی تراکیب بناتے ہوئے قابلِ استعمال ہے۔
یوں "پیران پیر" (نون کے نیچے زیر کے بغیر) اضافت مقلوب ہے جو قلبِ اضافت کے قاعدے سے بنا ہے جس میں مضاف الیہ (پیران) پہلے آ گیا ہے اور مضاف (پیر) بعد میں اور اس میں اضافت کی زیر حذف ہو گئی ہے۔
پیران پیر: پِیروں کا پِیر۔ اسے پیرانِ پیر (پی را نے پیر ) پڑھنا غلط ہے کیونکہ اس کا مطلب ایک پیر کے کئی پیر بنتا ہے جو غلط ہے۔
اضافتِ مقلوب کی کچھ اقسام (جو اضافت کی زیر کے بغیر پڑھی اور لکھی جائیں گی):
- ریگ ماہی: ریت کی مچھلی۔ اسے ریگِ ماہی (رے گے ما ہی) پڑھنا غلط ہے کیونکہ یوں اس کے معنی مچھلی کی ریت بن جائیں گے جو محمل ہے۔
- شادی مرگ: خوشی سے مر جانا۔ اسے شادیِ مرگ (شا دیے مرگ) پڑھنا غلط ہے کیونکہ اس طرح اس کا مطلب موت کے باعث خوش ہونا بنتا ہے جو بے معنی ہے۔
- پس منظر: پیچھے کا منظر۔ اسے پسِ منظر (پسے من ظر) پڑھنا غلط ہے کیونکہ یوں اس کا مطلب منظر کے پیچھے بنے گا جو درست نہیں۔
قلبِ اضافت
قلب اضافت
( قَلْبِ اِضافَت )
{ قَل + بے + اِضا + فَت }
( عربی )
تفصیلات
عربی زبان سے ماخوذ اسم 'قلب' کے ساتھ کسرہ اضافت لگانے کے بعد عربی زبان سے ہی اسم 'اضافت' ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٩٧٣ء کو "اردو نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔
معانی
اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - قواعد اضافت کا الٹا ہونا یعنی مضاف اور مضاف الیہ کی ترتیب کا بدل جانا۔
"ڈاکٹر صاحب یہ مانتے ہیں کہ شاہ رخ، دولت کدہ وغیرہ مرکبات میں قلب اضافت نہیں ہوا۔" ( ١٩٧٣ء، اردو نامہ، کراچی، ٤٤، ٣٣ )
آپ سب سے (خصوصاً برادران خالد محمود چوہدری اور سید ذیشان ) سے سیکھنے کے بعد مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا ہے۔
فارسی تراکیب میں قلبِ اضافت کے قائدے سے اضافتِ مقلوب بنائی جاتی ہے اور یہی قائدہ اردو میں بھی فارسی تراکیب بناتے ہوئے قابلِ استعمال ہے۔
یوں "پیران پیر" (نون کے نیچے زیر کے بغیر) اضافت مقلوب ہے جو قلبِ اضافت کے قاعدے سے بنا ہے جس میں مضاف الیہ (پیران) پہلے آ گیا ہے اور مضاف (پیر) بعد میں اور اس میں اضافت کی زیر حذف ہو گئی ہے۔
پیران پیر: پِیروں کا پِیر۔ اسے پیرانِ پیر (پی را نے پیر ) پڑھنا غلط ہے کیونکہ اس کا مطلب ایک پیر کے کئی پیر بنتا ہے جو غلط ہے۔
اضافتِ مقلوب کی کچھ اقسام (جو اضافت کی زیر کے بغیر پڑھی اور لکھی جائیں گی):
- ریگ ماہی: ریت کی مچھلی۔ اسے ریگِ ماہی (رے گے ما ہی) پڑھنا غلط ہے کیونکہ یوں اس کے معنی مچھلی کی ریت بن جائیں گے جو محمل ہے۔
- شادی مرگ: خوشی سے مر جانا۔ اسے شادیِ مرگ (شا دیے مرگ) پڑھنا غلط ہے کیونکہ اس طرح اس کا مطلب موت کے باعث خوش ہونا بنتا ہے جو بے معنی ہے۔
- پس منظر: پیچھے کا منظر۔ اسے پسِ منظر (پسے من ظر) پڑھنا غلط ہے کیونکہ یوں اس کا مطلب منظر کے پیچھے بنے گا جو درست نہیں۔
قلبِ اضافت
قلب اضافت
( قَلْبِ اِضافَت )
{ قَل + بے + اِضا + فَت }
( عربی )
تفصیلات
عربی زبان سے ماخوذ اسم 'قلب' کے ساتھ کسرہ اضافت لگانے کے بعد عربی زبان سے ہی اسم 'اضافت' ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٩٧٣ء کو "اردو نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔
معانی
اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - قواعد اضافت کا الٹا ہونا یعنی مضاف اور مضاف الیہ کی ترتیب کا بدل جانا۔
"ڈاکٹر صاحب یہ مانتے ہیں کہ شاہ رخ، دولت کدہ وغیرہ مرکبات میں قلب اضافت نہیں ہوا۔" ( ١٩٧٣ء، اردو نامہ، کراچی، ٤٤، ٣٣ )
نور اللغات کا حوالہ میں اوپر درج کر چکا ہوں اور ساتھ ہی فیروز اللغات کا بھی۔ اغلاط سے پاک تو کچھ بھی نہیں۔محترم فاتح صاحب ! مگر اس کا کیا کریں کہ نور اللغات میں تو پیرانِ پیر درج ہےنون مکسورکے ساتھ اور بقول آپ کے اس میں غلط العوام کا اندراج نہیں کیا جاتا-
http://archive.org/stream/nrullught02nayy#page/n154/mode/1up
ہر لغت میں ہر لفظ شامل نہیں ہوتا۔ کئی الفاظ شامل ہونے سے بچ جاتے ہیں۔ خواہ وہ نور اللغات ہو یا فرہنگ آصفیہ یا فیروز اللغات، سب میں ہی کچھ نہ کچھ رہ جاتا ہے۔ لہٰذا یہ سوال کہ فرہنگ آصفیہ میں یہ ترکیب کیوں شامل نہیں، اس بات پر ہر گز دلیل نہیں کہ اس کا استعمال غلط ہے۔اور پھر فرہنگ آصفیہ جیسی مستند ترین لغت میں یہ اضافتِ مقلوب کیوں نہیں ؟
https://archive.org/stream/FarhangAsifiya/00511_Farhang_Asifiya_1#page/n591/mode/2up
ارے قبلہ، ناخدا کی حد تک تو سوچا جا سکتا ہے کہ یہ اضافتِ مقلوبی ہو لیکن شراب اور خراب کے متعلق تو سوچنا بھی حرام ہےبرعکس دیگر مرکباتِ اضافی مقلوبی کے کہ زبان زدِ عام ہیں'خواہ زبانِ قلم ہو یا زبانِ دہن مَثَلاً
خدائے ناؤ سے ناخدا
آبِ شر سے شراب
آبِ خر سے خراب
میرا بھی یہی حال تھا اب سے پہلے۔۔۔ آیندہ آپ جب کہیں سنیں تو پڑھنے یا بولنے والے کی اصلاح کر دیجیے گا۔اس اضافتِ مقلوبی کی رواجی حیثیت کیا ہے
جبکہ اسے جہاں پڑھا اور سنا پیرانِ پیر ہی پایا-
ارے قبلہ، ناخدا کی حد تک تو سوچا جا سکتا ہے کہ یہ اضافتِ مقلوبی ہو لیکن شراب اور خراب کے متعلق تو سوچنا بھی حرام ہے
آب فارسی کا لفظ ہے جبکہ شراب اور خراب براہ راست عربی مادوں شَرَبَ اور خَرَبَ سے خالصتاً عربی نحو کے قاعدے سے بنے ہیں۔ یہ شر اور آب اور خر اور آب کے مرکبات نہیں ہیں۔
میں اردو کا عالم ہر گز نہیں ہوں۔۔۔ میں نے تو اردو کی کوئی کتاب بطور نصاب آخری مرتبہ بارھویں جماعت میں پڑھی تھی اور وہ تھی۔اردو کے علماء کے درمیان بیٹھ کر مفت میں ہم بھی کچھ علم کی خوشبو سے استفادہ کر رہے ہیں
علماءِ کرام شکریہ قبول فرمائیں۔
مندرجہ بالا تراکیب فارسی ہیں لہٰذا ان میں اضافتِ مقلوب دیکھنا ممکن ہےآبِ برف سے برفاب
آبِ پیش سے پیشاب
آبِ تیز سے تیزاب
مندرجہ بالا عربی مادے ہیں۔۔۔ ان میں شرب، خرب، ضرب اور فعل ثلاثی مجرد ہیں۔۔۔شرب یشرب سے شراب
خرب یخرب سے خراب
ضرب یضرب سے ضراب
فعل یفعل سے فعلاب
مندرجہ بالا تراکیب فارسی ہیں لہٰذا ان میں اضافتِ مقلوب دیکھنا ممکن ہے
مندرجہ بالا عربی مادے ہیں۔۔۔ ان میں شرب، خرب، ضرب اور فعل ثلاثی مجرد ہیں۔۔۔
اور ان سے شراب، خراب، ضراب اور فعال بن سکتے ہیں۔
فعلاب غلط ہے
متعلقہ ریٹنگگز:"فعلثلاثی مجرد" اس ظالم پر دو تین لیکچر میں نے بھی جھیلے تھے 13،14 سال قبل۔
کونسی تھی ؟؟؟میں اردو کا عالم ہر گز نہیں ہوں۔۔۔ میں نے تو اردو کی کوئی کتاب بطور نصاب آخری مرتبہ بارھویں جماعت میں پڑھی تھی اور وہ تھی۔
کاش وہ "نصاب" کی کتابوں میں شامل ہوتیکونسی تھی ؟؟؟
یادوں کی بارات