شمشاد
لائبریرین
یہ مجھے کسی نے اشعار بھیجے تھے، سوچا شریک محفل کر دو۔
مسلم اُمہ کا امریکہ سے شکوہ
(علامہ اقبال کی روح سے معذرت کے ساتھ)
کیوں گنہگار بنوں، ویزا فراموش رہوں
کب تلک خوف زدہ صورتِ خرگوش رہوں
وقت کا یہ بھی تقاضا ہے کہ خاموش رہوں
ہمنوا! میں کوئی مجرم ہوں کہ رُوپوش رہوں
شکوہ امریکہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو
چونکہ اس ملک کا صحرا بھی چمن ہے مجھ کو
گر ترے شہر میں آئے ہیں تو معذور ہیں ہم
وقت کا بوجھ اٹھائے ہوئے مزدور ہیں ہم
ایک ہی جاب پہ مدت سے بدستور ہیں ہم
بُش سے نزدیک، مشرف سے بہت دور ہیں ہم
یو ایس اے شکوہء اربابِ وفا بھی سُن لے
لبِ توصیف سے تھوڑا سا گلہ بھی سُن لے
تیرے پرچم کو سرِ عرش اڑایا کس نے؟
تیرے قانون کو سینے سے لگایا کس نے؟
ہر سینیٹر کو الیکشن میں جتایا کس نے؟
فنڈ ریزنگ کی محفل کو سجایا کس نے؟
ہیلری سے کبھی پوچھو، کبھ چک شومر سے
ہر سینیٹر کو نوازا ہے یہاں ڈالر سے
جیکسن ہائیٹس کی گلیوں کو بسایا ہم نے
کوئی آئی لینڈ کی زینت کو بڑھایا ہم نے
گوریوں ہی سے نہیں عشق لڑایا ہم نے
کالیوں سے بھی یہاں عقد رچایا ہم نے
آ کے اس ملک میں رشتے ہی فقط جوڑے ہیں
تم تو کیا ہم نے پٹاخے بھی نہیں چھوڑے ہیں
جب بُرا وقت پڑا ہم نے سنبھالی مسجد
کب تلک رہتی مسلمان سے خالی مسجد
جب ہوئی گھر سے بہت دور بلالی مسجد
ہم نے تہہ خانے میں چھوٹی سی بنا لی مسجد
ہم نے کیا جرم کیا اپنی عبادت کے لئے
صرف میلاد کیا جشنِ ولادت کے لئے
ہم نے رکھی ہے یہاں امن و اماں کی بنیاد
ہر مسلمان کو "یو ایس" میں پڑی ہے افتاد
اپنی فطرت میں نہیں دہشت و دنگا و فساد
پھر بھی ہم نے ترے شہروں کو کیا ہے آباد
ہر مسلماں ہے یہاں امن کا حامی دیکھو
ہیوسٹن جاؤ، ایل اے دیکھو، میامی جاؤ
گر گیا تیز ہواؤں سے اگر طیارہ
پکڑا جاتا ہے مسلمان یہاں بے چارہ
کبھی گھورا، کبھی تاڑا تو کبھی للکارا
کبھ "سب وے" سے اٹھایا، کبھ چھاپہ مارا
تو نے یہ کہہ کے جہازوں کو کراچی بھیجا
یہ بھی شکلاً ہے مسلمان اسے بھی لے جا
میڈیا تیرا، دوات اور قلم تیرے ہیں
جتنے بھی ملک ہیں ڈالر کی قسم تیرے ہیں
یہ شہنشاہ یہ اربابِ حرم تیرے ہیں
تیرا دینار، ریال اور درہم تیرے ہیں
تو نے جب بھی کبھی مانگا ہے تجھے تیل دیا
تجھ کو جب موقع لگا تو نے ہمیں پیل دیا
حالتِ جنگ میں ہم لوگ ترے ساتھ رہے
تا کہ دنیا کی قیادت میں تری بات رہے
یہ ضروری تھا کہ تجدیدِ ملاقات رہے
دیکھئے کتنے برس چشمِ عنایات رہے
ہم ترے سب سے بڑے حلقہء احباب میں ہیں
پھر بھی طوفاں سے نکلتے نہیں گرداب میں ہیں
"ایڈ" دیتا ہے تری حوصلہ افزائی ہے
تیرا یہ دستِ کرم سود کا سودائی ہے
اسلحہ دے کے جو غیروں سے شناسائی ہے
یہ بھی اسلام کے دشمن کی پذیرائی ہے
رحمتیں ہیں تری ہر قوم کے انسانوں پر
چھاپہ پڑتا ہے تو بے چارے مسلمانوں پر
مسلم اُمہ کا امریکہ سے شکوہ
(علامہ اقبال کی روح سے معذرت کے ساتھ)
کیوں گنہگار بنوں، ویزا فراموش رہوں
کب تلک خوف زدہ صورتِ خرگوش رہوں
وقت کا یہ بھی تقاضا ہے کہ خاموش رہوں
ہمنوا! میں کوئی مجرم ہوں کہ رُوپوش رہوں
شکوہ امریکہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو
چونکہ اس ملک کا صحرا بھی چمن ہے مجھ کو
گر ترے شہر میں آئے ہیں تو معذور ہیں ہم
وقت کا بوجھ اٹھائے ہوئے مزدور ہیں ہم
ایک ہی جاب پہ مدت سے بدستور ہیں ہم
بُش سے نزدیک، مشرف سے بہت دور ہیں ہم
یو ایس اے شکوہء اربابِ وفا بھی سُن لے
لبِ توصیف سے تھوڑا سا گلہ بھی سُن لے
تیرے پرچم کو سرِ عرش اڑایا کس نے؟
تیرے قانون کو سینے سے لگایا کس نے؟
ہر سینیٹر کو الیکشن میں جتایا کس نے؟
فنڈ ریزنگ کی محفل کو سجایا کس نے؟
ہیلری سے کبھی پوچھو، کبھ چک شومر سے
ہر سینیٹر کو نوازا ہے یہاں ڈالر سے
جیکسن ہائیٹس کی گلیوں کو بسایا ہم نے
کوئی آئی لینڈ کی زینت کو بڑھایا ہم نے
گوریوں ہی سے نہیں عشق لڑایا ہم نے
کالیوں سے بھی یہاں عقد رچایا ہم نے
آ کے اس ملک میں رشتے ہی فقط جوڑے ہیں
تم تو کیا ہم نے پٹاخے بھی نہیں چھوڑے ہیں
جب بُرا وقت پڑا ہم نے سنبھالی مسجد
کب تلک رہتی مسلمان سے خالی مسجد
جب ہوئی گھر سے بہت دور بلالی مسجد
ہم نے تہہ خانے میں چھوٹی سی بنا لی مسجد
ہم نے کیا جرم کیا اپنی عبادت کے لئے
صرف میلاد کیا جشنِ ولادت کے لئے
ہم نے رکھی ہے یہاں امن و اماں کی بنیاد
ہر مسلمان کو "یو ایس" میں پڑی ہے افتاد
اپنی فطرت میں نہیں دہشت و دنگا و فساد
پھر بھی ہم نے ترے شہروں کو کیا ہے آباد
ہر مسلماں ہے یہاں امن کا حامی دیکھو
ہیوسٹن جاؤ، ایل اے دیکھو، میامی جاؤ
گر گیا تیز ہواؤں سے اگر طیارہ
پکڑا جاتا ہے مسلمان یہاں بے چارہ
کبھی گھورا، کبھی تاڑا تو کبھی للکارا
کبھ "سب وے" سے اٹھایا، کبھ چھاپہ مارا
تو نے یہ کہہ کے جہازوں کو کراچی بھیجا
یہ بھی شکلاً ہے مسلمان اسے بھی لے جا
میڈیا تیرا، دوات اور قلم تیرے ہیں
جتنے بھی ملک ہیں ڈالر کی قسم تیرے ہیں
یہ شہنشاہ یہ اربابِ حرم تیرے ہیں
تیرا دینار، ریال اور درہم تیرے ہیں
تو نے جب بھی کبھی مانگا ہے تجھے تیل دیا
تجھ کو جب موقع لگا تو نے ہمیں پیل دیا
حالتِ جنگ میں ہم لوگ ترے ساتھ رہے
تا کہ دنیا کی قیادت میں تری بات رہے
یہ ضروری تھا کہ تجدیدِ ملاقات رہے
دیکھئے کتنے برس چشمِ عنایات رہے
ہم ترے سب سے بڑے حلقہء احباب میں ہیں
پھر بھی طوفاں سے نکلتے نہیں گرداب میں ہیں
"ایڈ" دیتا ہے تری حوصلہ افزائی ہے
تیرا یہ دستِ کرم سود کا سودائی ہے
اسلحہ دے کے جو غیروں سے شناسائی ہے
یہ بھی اسلام کے دشمن کی پذیرائی ہے
رحمتیں ہیں تری ہر قوم کے انسانوں پر
چھاپہ پڑتا ہے تو بے چارے مسلمانوں پر