احمد بلال
محفلین
پیری میں کیا جوانی کے موسم کو روئیے
اب صبح ہونے آئی ہے اک دم تو سوئیے
رخسار اس کے ہائے رے جب دیکھتے ہیں ہم
آتا ہے جی میں آنکھوں کو ان میں گڑوئیے
کس طور آنسوؤں میں نہاتے ہیں غم کشاں
اس آب گرم میں تو نہ انگلی ڈبوئیے
اب جان جسم خاک سے تنگ آ گئی بہت
کب تک اس ایک ٹوکری مٹی کو ڈھوئیے
آلودہ اس گلی کے جو ہوں خاک سے تو میر
آب حیات سے بھی نہ وے پانؤں دھوئیے
اب صبح ہونے آئی ہے اک دم تو سوئیے
رخسار اس کے ہائے رے جب دیکھتے ہیں ہم
آتا ہے جی میں آنکھوں کو ان میں گڑوئیے
کس طور آنسوؤں میں نہاتے ہیں غم کشاں
اس آب گرم میں تو نہ انگلی ڈبوئیے
اب جان جسم خاک سے تنگ آ گئی بہت
کب تک اس ایک ٹوکری مٹی کو ڈھوئیے
آلودہ اس گلی کے جو ہوں خاک سے تو میر
آب حیات سے بھی نہ وے پانؤں دھوئیے