واہ واہخالِ مشکیں بھی، زُلفِ پیچاں بھی
دانہ تم سے ہے، دام تم سے ہے
دیکھ لوں کاش ! جھلک میں کہیں تھوڑی سی
میرا پاس کچھ اسی طرح ہےبہت عمدہ، سبحان اللہ
اس مصرع میں کچھ کمی ہے۔ کہیں نسخہ ہو تو دیکھ لیں۔
نیٹ پر کافی جگہ تلاش کرنے پر کچھ اس طرح ملا ہے یہ مصرع. اور میرا اپنا گمان بھی یہی ہے. کیونکہ پیر صاحب جس پائے کے شاعر تھے. ان سے عروضی غلطی کا امکان کم ہے. البتہ نیٹ پر زیادہ کاپی پیسٹ چلتا ہے. جس طرح کسی نے ایک دفعہ لکھ دیا اور پھیل گیا. تو وہی ہر جگہ کاپی پیسٹ ہو جاتا ہے.میرا پاس کچھ اسی طرح ہے
جی لفظ "بھی" کی ہی غلطی ہےنیٹ پر کافی جگہ تلاش کرنے پر کچھ اس طرح ملا ہے یہ مصرع. اور میرا اپنا گمان بھی یہی ہے. کیونکہ پیر صاحب جس پائے کے شاعر تھے. ان سے عروضی غلطی کا امکان کم ہے. البتہ نیٹ پر زیادہ کاپی پیسٹ چلتا ہے. جس طرح کسی نے ایک دفعہ لکھ دیا اور پھیل گیا. تو وہی ہر جگہ کاپی پیسٹ ہو جاتا ہے.
دیکھ لوں کاش جھلک میں بھی کہیں تھوڑی سی
مناسب ہو گا کہ چھپے ہوئے کلام سے ویریفائی ہو جائے.
الف نظامی ابو المیزاب اویس
سبحان اللہسوئے گلشن وہ ترا گھر سے خراماں ہونا ۔ پیر نصیر الدین نصیر
سوئے گلشن وہ ترا گھر سے خراماں ہونا
سَرو کا جھومنا غنچوں کا غزل خواں ہونا
خوبرو گرچہ ہوئے اور بھی لاکھوں لیکن
تجھ سے مخصوص رہا خسروِ خوباں ہونا
زندگی بھر کی تمناؤں کا ٹھہرا حاصل
سامنے تیرے مرا خاک میں پنہاں ہونا
یہ تو اندر کا مرے درد ہے دکھ ہے غم ہے
میرے رونے پہ کہیں تم نہ پریشاں ہونا
یوں مری آنکھ سے اس چاند کا ہونا اوجھل
ہے سہاگن کی بھری گود کا ویراں ہونا
واعظِ شہر کی تقدیر میں یا رب جنت
میری قسمت میں ہو خاکِ درِ جاناں ہونا
خاک سے ہو کے مرا خاک میں جانا مر کر
اپنے ہی گھر میں ہو جیسے مرا مہماں ہونا
تم نے دریا ہی کو دیکھا اٹھاتے طوفاں
آج دیکھو کسی قطرے کا بھی طوفاں ہونا
جب لحد میں مجھے رکھیں تو خدارا تم بھی
جلوہ فرما بسرِ گورِ غریباں ہونا
سامنے پا کے تجھے کیوں نہ مریں ہم تجھ پر
کام پروانوں کا ہے شمع پہ قرباں ہونا
سبحان اللہجس طرف سے گلشن عدنان گیا
ساتھ ہی قافلہ سنبل و ریحان گیا
اس بلندی پہ ہر گز نہ کوئی انسان گیا
عرش پر بن کے وہ الله کا مہمان گیا
لے کے جنّت کی طرف جب مجھے رضوان گیا
شور اٹھا وہ گدائے شہ زیشان گیا
مجھ خطاکار پہ کیا کیا نہ کئیے تو نے کرم
میرے آقا تیری رحمت کے میں قربان گیا
اتنی تسکیں پس فریاد کہاں ملتی ہے
کوئی مائل بہ سماعت ہے یہ دل جان گیا
اس کے دامن میں نہیں کچھ بھی ندامت کے سوا
جس کے ہاتھوں سے تیرا دامن احسان گیا
جب قدم دائرہ عشق نبی سے نکلا
بات ایمان کی اتنی ہے کہ ایمان گیا
ظلمت دہر میں تھا کہکشاں ان کا خیال
ذہن پر چادر فیضان سحر تان گیا
ناخدائی اسے کہیئے کہ خدائی کہئیے
میری کشتی کو ابھارے ہوئے طوفان گیا
کر لیا ان کو تصور میں مخاطب جس دم
روح کی پیاس بجھی قلب کا ہیجان گیا
لفظ جاوک سے قرآں نے کیا استقبال
ان کی چوکھٹ پہ جو بن کر کوئی مہمان گیا
تھا مدینے میں عرب اور عجم کا مالک
وہ جو مکہ سے وہاں بے سروسامان گیا
دل کا رخ پھر لیا قصہ ہجرت کی طرف
جب تڑپنا نہ شب غم کسی عنوان گیا
خاک بوسی کی جو درباں سے اجازت چاہی
للّہ الحمد کہ وہ میرا کہا ماں گیا
ان سے نسبت کی ضیاءسے ہے میرا دل روشن
خیر سے اس کے بھٹکنے کا امکان گیا
فخر دولت بھی غلط ناز نسب بھی باطل
کیا یہ کم ہے کہ میں دنیا سے مسلمان گیا
شامل حال ہوئی جب سے حمایت ان کی
فتح کی زد سے نہ بچ کر کوئی میدان گیا
اس گنہ گار پہ اتمام کرم تھا ایسا
حشر میں دور سے رضواں مجھے پہچان گیا
تا حد در خلد چہرہ انور پہ نظر
سب نے دیکھا کہ میں پڑھتا ہوا قرآن گیا
میرے اعمال تو بخشش کے نہ تھے پھر بھی نصیر
کی محمّد نے شفاعت تو خدا مان گیا
چراغ گولڑہ پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ
بھائی پیر نصیرالدین کی بک نیٹ پر ہیں پڑیں
انکی محفل میں نصیر انکے تبسم کی قسم
دیکھتے رہ گئے ہم ہاتھ سے جانا دل کا
شاہ نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ
پیر نصیر کی زبانی سن لیں۔ ♥️♥️♥️مجھ پہ بھی چشمِ کرم اے مرے آقا! کرنا
حق تو میرا بھی ہے رحمت کا تقاضہ کرنا
میں کہ ذرہ ہوں مجھے وسعتِ صحرا دےدے
کہ ترے بس میں ہے قطرے کو بھی دریا کرنا
میں ہوں بےکس ، تیرا شیوہ ہے سہارا دینا
میں ہوں بیمار ، تیرا کام ہے اچھا کرنا
تو کسی کو بھی اٹھاتا نہیں اپنے در سے
کہ تری شان کے شایاں نہیں ایسا کرنا
تیرے صدقے ، وہ اُسی رنگ میں خود ہی ڈوبا
جس نے ،جس رنگ میں چاہا مجھے رُسوا کرنا
یہ ترا کام ہے اے آمنہ کے درِ یتیم!
ساری امت کی شفاعت، تنِ تنہا کرنا
کثرتِ شوق سے اوسان مدینے میں ہیں گم
نہیں کُھلتا کہ مجھے چاہیے کیا کیا کرنا
یہ تمنائے محبت ہے کہ اے داورِ حشر!
فیصلہ میرا سپردِ شہِ بطحا کرنا
آل و اصحاب کی سنت ، مرا معیارِ وفا
تری چاہت کے عوض ، جان کا سودا کرنا
شاملِ مقصدِ تخلیق یہ پہلو بھی رہا
بزمِ عالم کو سجا کر تیرا چرچا کرنا
یہ صراحت ورفعنالک ذکرک میں ہے
تیری تعریف کرانا ،تجھے اُونچا کرنا
تیرے آگے وہ ہر اک منظرِ فطرت کا ادب
چاند سورج کا وہ پہروں تجھے دیکھا کرنا
طبعِ اقدس کے مطابق وہ ہواؤں کا خرام
دھوپ میں دوڑ کے وہ ابر کا سایہ کرنا
کنکروں کا تیرے اعجاز سے وہ بول اٹھنا
وہ درختوں کا تیری دید پہ جھوما کرنا
وہ تیرا درس کہ جھکنا تو خدا کے آگے
وہ تیرا حکم کہ خالق کو ہی سجدہ کرنا
چاند کی طرح تیرے گرد وہ تاروں کا ہجوم
وہ تیرا حلقہ اصحاب میں بیٹھا کرنا
ٖقاب قوسین کی منزل پہ یکایک وہ طلب
شبِ اسرا وہ بلانا ، تجھے دیکھا کرنا
دشمن آجائے تو اٹھ کر وہ بچھانا چادر
حسنِ اخلاق سے غیروں کو بھی اپنا کرنا
کوئی فاروق سے پوچھے کہ کسے آتا ہے
دل کی دنیا کو نظر سے تہہ وبالا کرنا
اُن صحابہ کی خوش اطو ار نگاہوں کو سلام
جن کا مسلک تھا، طوافِ رخِ زیبا کرنا
مجھ پہ محشر میں نصیر اُن کی نظر پڑ ہی گئی
کہنے والے اسے کہتے ہیں "خدا کا کرنا"