کاظمی بابا
محفلین
اسی کی دہائی کے اوائل کا ذکر ہے، ہم پاک فضائیہ میں تھے۔
چھٹیوں سے واپسی پر راولپنڈی کے پیر ودھائی لاری اڈے پر علی صبح پہنچتے اور وہاں ناشتہ کرتے۔
وہاں ایک کریہ شکل والا گداگر اکثر نظر آتا، مٹی اور تنکوں سے اٹے بال، انتہائی غلیظ لباس اور منہ اور ناک سے بہتا پیپ نما پانی ۔ ۔ ۔ اس کی ہیئت کی وجہ سے لوگ اسے پاس نہیں آنے دیتے تھے۔
وہ جب کسی کو کھانا کھاتے دیکھتا تو موقع پا کر دور سے پلیٹ میں تھوک پھینک دیتا ۔ ۔ ۔ بے چارہ مسافر اس کھانے کو چھوڑ دیتا اور وہ گداگر جھٹ سے اسے اٹھا کر کھانے لگ جاتا ۔ ۔ ۔
یہ اس کی فطرت نہیں تھی، اس کی مجبوری تھی ۔ ۔ ۔
کیا ہم کھانا کھاتے وقت کسی ایسے مجبور کے بارے میں سوچنا پسند کرتے ہیں ؟
چھٹیوں سے واپسی پر راولپنڈی کے پیر ودھائی لاری اڈے پر علی صبح پہنچتے اور وہاں ناشتہ کرتے۔
وہاں ایک کریہ شکل والا گداگر اکثر نظر آتا، مٹی اور تنکوں سے اٹے بال، انتہائی غلیظ لباس اور منہ اور ناک سے بہتا پیپ نما پانی ۔ ۔ ۔ اس کی ہیئت کی وجہ سے لوگ اسے پاس نہیں آنے دیتے تھے۔
وہ جب کسی کو کھانا کھاتے دیکھتا تو موقع پا کر دور سے پلیٹ میں تھوک پھینک دیتا ۔ ۔ ۔ بے چارہ مسافر اس کھانے کو چھوڑ دیتا اور وہ گداگر جھٹ سے اسے اٹھا کر کھانے لگ جاتا ۔ ۔ ۔
یہ اس کی فطرت نہیں تھی، اس کی مجبوری تھی ۔ ۔ ۔
کیا ہم کھانا کھاتے وقت کسی ایسے مجبور کے بارے میں سوچنا پسند کرتے ہیں ؟