پیر ودھائی کا گداگر

کاظمی بابا

محفلین
اسی کی دہائی کے اوائل کا ذکر ہے، ہم پاک فضائیہ میں تھے۔
چھٹیوں سے واپسی پر راولپنڈی کے پیر ودھائی لاری اڈے پر علی صبح پہنچتے اور وہاں ناشتہ کرتے۔

وہاں ایک کریہ شکل والا گداگر اکثر نظر آتا، مٹی اور تنکوں سے اٹے بال، انتہائی غلیظ لباس اور منہ اور ناک سے بہتا پیپ نما پانی ۔ ۔ ۔ اس کی ہیئت کی وجہ سے لوگ اسے پاس نہیں آنے دیتے تھے۔

وہ جب کسی کو کھانا کھاتے دیکھتا تو موقع پا کر دور سے پلیٹ میں تھوک پھینک دیتا ۔ ۔ ۔ بے چارہ مسافر اس کھانے کو چھوڑ دیتا اور وہ گداگر جھٹ سے اسے اٹھا کر کھانے لگ جاتا ۔ ۔ ۔

یہ اس کی فطرت نہیں تھی، اس کی مجبوری تھی ۔ ۔ ۔

کیا ہم کھانا کھاتے وقت کسی ایسے مجبور کے بارے میں سوچنا پسند کرتے ہیں ؟
 

کاظمی بابا

محفلین
میں سمجھا اس کی دولت کا ذکر ہونے والا ہے۔لیکن ۔۔۔۔
خالد صاحب !
ہم اپنے وطن میں ایسے ایسے کرب ناک حالات کا شکار لوگوں سے ملے ہیں کہ اپنے سارے دکھ ہیچ نظر آنے لگتے ہیں۔
اللہ سب کو توفیق دے کہ اپنے ارد گرد اور قریبی لوگوں کے لئے جتنا ہو سکے کر سکیں۔
 

نور وجدان

لائبریرین
خالد صاحب !
ہم اپنے وطن میں ایسے ایسے کرب ناک حالات کا شکار لوگوں سے ملے ہیں کہ اپنے سارے دکھ ہیچ نظر آنے لگتے ہیں۔
اللہ سب کو توفیق دے کہ اپنے ارد گرد اور قریبی لوگوں کے لئے جتنا ہو سکے کر سکیں۔

موضوع گفتگو کرب ہو یا گداگری۔ ایک گدا گر آپ کو سڑک پر نظر آتا ہے اور کئی گھر میں ہوتے ہیں ،نظر نہیں آتے ۔۔سارے لوگ انسانوں سے مانگتے ہیں اور کرب پاتے ہیں ۔۔خود سے جستجو کریں یا صبر اور اللہ سے مانگیں ۔
 

arifkarim

معطل
بھوک اور ننگ اس قوم کا دائمی المیہ ہے۔ پچھلے 150 سال انگریز لوٹتے رہے، ان سے قبل ایرانی، افغانی اور اب اپنے ہی مقامی لوگ ایک دوسرے کو لوٹ کھسوٹ کیساتھ کھا رہے ہیں۔
 

یاسر نور

محفلین
اگرہم گھر میں کھانا کھانے سے پہلے سوچ لیں کے ہمارے پڑوس میں کوئی بھوکا تو نہیں
یہ سوچ ہی بہت حد تک گدا گری میں کمی کا سبب بن سکتی ھے
 
لیکن میرا خیال ہے کہ آج کل یہ گداگری ایک بہت ہی منافع بخش پروفیشن بنی ہوئی ہے. نہ تو آپ کو محنت کرنی پڑتی ہے اور کوئی پسینہ بہانا پڑتا ہے بس تولے کی زبان ہلا لو کچھ نا کچھ تو مل ہی جائے گا...
اور آج کل کے دور میں 85 پرسنٹ ایسے گداگری ہیں جو صرف محنت سے گھبرا کر اس پروفیشن کو اپناتے ہیں
 
Top