طارق شاہ
محفلین
غزل
پیشِ نظر ہوں حُسن کی رعنائیاں وہی
دِل کی طلب ہے حشر کی سامانیاں وہی
اِک عمر ہوگئی ہے اگرچہ وصال کو
نظروں میں ہیں رَچی تِری رعانائیاں وہی
میں کب کا بجھ چُکا ہوں مجھے یاد بھی نہیں
دِل میں ہے کیوں رہیں تِری تابانیاں وہی
بیٹھا تِرے خیال سے ہُوں انجمن کئے
اے کاش پھر سے لوٹیں نہ تنہائیاں وہی
جاتی ہیں عادتیں کہیں پختہ رہیں خلش!
چاہے نہ کب یہ دل کہ ہو، نادانیاں وہی
قوّت کہاں ہے دل میں سہے پھر سے اب خلش
آئیں جو لوٹ کر مری ناکامیاں وہی
شفیق خلش
آخری تدوین: