میاں شاہد
محفلین
[FONT="]پیغامِ معراج[/FONT]
[FONT="]از:داعیٔ قرآن حضرت مولانامفتی عتیق الرحمن شہید رحمة اللہ علیہ[/FONT]
[FONT="] دنیائے انسانیت نشان راہ گم کر چکی تھی اور اپنی منزل سے بھٹک کر توہمات کا شکار ہو چکی تھی بنی نوع انسان پر جادو ، جنات اور نجومیوں کی حکمرانی تھی ۔ وہ اپنی منزل سے نا آشنا ہو کر پستی وذلت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ٹھوکریں کھا رہی تھی ۔[/FONT]
[FONT="] قدرت کو اس کی سادہ لوحی وبے بسی پر رحم آیا ۔ جبل نور کی فلک شگاف بلندی پر روشنی کا ایک مینار ظاہر ہوا ۔ عرب کے اندھیرے افق پر سراج منیر طلوع ہوا اورغار حرا کے دامن سے نکل کر اس کی کرنیں چاردانگ عالم کو منور کرنے لگیں ۔پھر اسی سراج منیر نے کوہ صفا کی چوٹی پر جلوہ افروز ہوکر تمام عالم کے انسانوں کو ” یا ایھا الناس قولوا لاالہ الا اللہ تفلحوا “ کا نعرہ حریت لگا کر آزادی وخود مختاری کا درس دیا۔ یہ نعرہ دراصل ” لات ومنات“ کی غلامی سے آزادی کا نعرہ تھا ۔ توہمات وخواہشات کی محکومی کے خلاف اعلان حریت تھا ۔ رسم ورواج کے چنگل سے نکل کر ایک وحدہ لاشریک کا بندہ بننے کی دعوت تھی کرہ ارض کی تنگ وتاریک وادیوں سے نکل کر فضا کی وسعتوں میں اپنی منزل تلاش کرنےکی دعوت تھی ۔ انسان کے لئے پیغام تھا کہ زمین پر رہتے ہوئے جن ستاروں کو تو اپنی قسمت کا محور سمجھتا ہے در حقیقت ان ستاروں کی قسمت تجھ سے وابستہ ہے اور اس عالم ہست وبود کی وسعت ان ستاروں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ [/FONT][FONT="][/FONT]
[FONT="]ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں[/FONT]
[FONT="] پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی [/FONT]
[FONT="] ستارے جس کی گردراہ ہوں، وہ کارواں تو ہے [/FONT]
[FONT="] قوم کی سرد مہری اور طواغیت کفر کی ریشہ دوانی اپنا کام کرتی ہے اور راہ حق کے مسافر وں پر ظلم وستم کے پہاڑ ٹوٹنے لگتے ہیں۔ حق کو پھونکو ں سے بجھانے کےلئے پورا کفر ایڑی چوٹی کا زور لگادیتا ہے ۔ مگر وہ شمع فرزاں نور مجسم ﷺ کسی پہلو چین نہیں لیتے دن کو لوگو ں کے ظلم وستم کا تختہ مشق بنتے ہیں تو رات کو اپنے خالق کے دربار میں انہی گالیاں دینے والوں اور پتھر برسانے والوں کےلئے رحمت کی دعائیں کرتے ہیں [/FONT][FONT="][/FONT]
[FONT="]سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں [/FONT]
[FONT="] پھر آپ ﷺ کو وہ سواری پیش کی گئی جس کا قدم منتہائے نظرپر جاکر پڑ تا تھا اونٹ اور گھوڑے کے زمانہ میں نظر کی رفتار سے سفر کرنےوالی سواری کا تصور پیش کرکے مستقبل کی ترقی یافتہ سواریوں کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے اور اسی تصور نے آج کے انسا ن کو آواز سے زیادہ تیز رفتار طیارے بنانے کا حوصلہ دیا ۔ پھر مسجد اقصی سے آسمانوں پر لے جانے کےلئے آپ کوجو معراج (سیڑھی) پیش کی گئی اور چشم زدن میں اس نے آپ کو آسمانوں کی بلندیوں سے بھی آگے پہنچا،دیا اس سے جدید سائنس نے تیز رفتار برقی سیڑھی ([/FONT]Lift[FONT="] ) کا تصور پیش کیا ۔[/FONT]
[FONT="] آسمانوں پر نبی اُمی ﷺ عالم ملکوت کا مشاہدہ کرتے ہوئے اور قاب قوسین کے مرتبہ پر پہنچ کر عالم انسانیت کی یہ اعلیٰ ترین شخصیت جبین نیاز جھکادیتی ہے اور رب کائنات ” فاوحیٰ الیٰ عبدہ مااوحیٰ“ کے پیار بھرے الفاظ سے کائنات کے اسرار ورموز کھولتے ہوئے آپ ﷺ کو انسانیت کے اعلیٰ ترین منصب ” مقام عبدیت“ پر فائز کرتے ہیں ۔[/FONT]
[FONT="] معراج کے موقع پر جنت کے مناظر آپ کے سامنے لاکر ترقی یافتہ انسان کا اعلیٰ نمونہ دکھلایا گیا ، جس کا راستہ دنیا میں ایمان کی جہد مسلسل اور اعمال صالحہ کے تدریجی مراحل ہیں جن سے تزکیہ نفس ہوتا ہے ۔ اور آخرت میں جنت اور اسکی نعمتیں اس کا مقدر بنتی ہیں ۔ اور جہنم کے مناظر سامنے لاکر پسماندہ انسان کا بدترین نمونہ دکھایا گیا جو دنیا میں ایمان کی محنت اور اعمال صالحہ کی نعمت سے محروم انسان کوآخرت میں مقدر ہے اور جنت کے مناظر میں آپ ﷺ دیکھتے ہیں کہ وہ انسان جسے برسوں کی محنت شاقہ سے اسکی منزل دکھائی گئی تھی ، جس کےلئے گالیاں اور پتھر کھائے تھے وہی انسان بلال حبشی رضی اللہ عنہ کے روپ میں جنت کی سیر کررہا ہے[/FONT][FONT="][/FONT]
[FONT="]بلال اک بے نوا تھا اور حبشہ کا رہنے والا تھا [/FONT]
[FONT="] سنا ہے شب اسرا وہ جنت کا اجالا تھا [/FONT]
[FONT="] معراج مصطفی، آپ ﷺ کے غمزدہ دل کی تسلی وتشفی کےلئے تھا کہ میرے نبی !اگر یہ لوگ آپ پر ایمان نہیں لاتے تو میں رب کائنات عرش معلی پہ آپکی رسالت کاڈنکا بجاؤں گا ۔ اگر یہ لوگ آپ کے اعزازو اکرام اور آپ کے مرتبہ کو نہیں پہچانتے تو کوئی بات نہیں ساری خدائی آپ کے استقبال کےلئے چشم براہ ہے ۔ معراج کے ذریعہ آپ کو تازہ دم کرکے ہجرت کے بعد شروع ہونےوالے دعوت کے نئے مرحلہ ” اور کفر کے ساتھ جدید معرکہ “کےلئے تیار کیا گیا ۔ [/FONT]
[FONT="] واقعہ معراج انسانوں کےلئے آزمائش تھی ۔ وماجعلنا الرءیا التی اریناک الافتنۃ للناس۔آپ ﷺ کو یہ مشاہدہ لوگوں کی آزمائش کےلئے کرایا گیا ۔یہ آپ ﷺکے ماننے والوں کا امتحان تھا ۔ اور اہل ایمان کی صفوں سے ان کالی بھیڑوں کو نکالنا مقصود تھا جو ذاتی مفاد کی خاطر اہل ایمان کی صفوں میں شامل ہورہے تھے ۔ یہی وہ معراج ہے جس کے انکار نے ابو الحکم کو ” ابو جہل “ بنا دیا اور جس کی تصدیق نے ابو بکر کو ” صدیق اکبر“ بنادیا ۔[/FONT]
[FONT="] آج کے اس ترقی یا فتہ دور میں جبکہ انسان ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے اور زہر ہ ومریخ اور شمس وقمر کے فاصلوں کو سمیٹا جا رہا ہے ، معراج مصطفے کا منکر اپنے دامن میں ڈھٹائی اور تنگ نظری کے سوا کچھ نہیں رکھتا ۔ میزائل وکمپیوٹر کے دور میں معراج کا انکار ، اونٹو ں اور پتھروں کے زمانہ کے انسان کی اندھی تقلید کی بدترین مثال ہے ۔ معراج مصطفے نے انسانیت کو تسخیر کائنات کا سبق دیا [/FONT][FONT="][/FONT]
[FONT="] سبق ملا ہے یہ معراج مصطفے سے مجھے[/FONT]
[FONT="] کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں [/FONT]
[FONT="] ہم آج اس رہبر انسانیت کو سلام کرتے ہیں جس نے انسان کو یہ سبق دیا کہ تجھ پر شمس وقمر اور نجوم وسماءکی حکمرانی نہیں ہے بلکہ سارا نظام فلکی تیرے لئے غبار راہ ہے اور اس نبی امی ﷺ کے جاں نثار غلام ” حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ“ کی عظمتوں کو سلام کرتے ہیں جس نے شب معراج میں یہ پیغام دیا کہ انسانیت کی فلاح وکامرانی اور ” تسخیرکائنات “ کا راز پیغمبر اسلام کی غلامی اور آپکی اطاعت میں پوشیدہ ہے[/FONT][FONT="][/FONT]
[FONT="]تیری معراج کہ تو لوح وقلم تک پہنچا [/FONT]
[FONT="] میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا[/FONT]