حسان خان
لائبریرین
نگاہِ فطرت کی ضو سے یوں تو ہر ایک ذرہ جھلک رہا ہے
ہر ایک قوت ابھر رہی ہے، ہر ایک پودا پھبک رہا ہے
دبے ہیں ذرات کی تہوں میں ہزار اسرار کے خزانے
ازل سے آغوشِ خار و خس میں کھِلے ہیں پھولوں کے کارخانے
ہوائے نشوونما کا جھونکا ہر اک چمن سے گذر رہا ہے
ہر ایک خوشہ ہے محوِ زینت، ہر ایک شگوفہ سنور رہا ہے
ازل کے دن جس طرح ملی تھی جمود کو رخصتِ روانی
مچل رہا ہے رگِ جہاں میں اسی طرح خونِ زندگانی
اگرچہ صدیاں گذر چکی ہیں پڑے ہیں کیا کیا حجاب اب تک
مگر زمانے کے خال و خط سے ٹپک رہا ہے شباب اب تک
ادا سے چلتی ہے گلستانِ جہاں میں بادِ بہار اب بھی
زمانہ ہے رحمتوں کی تازہ نوازشوں سے دوچار اب بھی
جبینِ لیلائے شب ہے روشن روپہلی قندیل سے قمر کی
سنہری کنگن میں ہنس رہی ہے کلائی دوشیزۂ سحر کی
عطا و انعام کے فرشتے یہاں سدا پیش و پس رہے ہیں
زمیں پہ صبحِ ازل سے اب تک کرم کے بادل برس رہے ہیں
مگر یہ سب بے شمار تحفے، زمیں کو فطرت جو بخشتی ہے
کوئی حقیقی ہے ان میں نعمت تو وہ اک آزاد آدمی ہے
وہ آدمی، موجِ زندگی سے نگاہ جس کی دھلی ہوئی ہے
وہ آدمی جس کے ہر نفس میں کتابِ حکمت کھلی ہوئی ہے
وہ آدمی جس کی تیز نظریں، مزاجِ عالم کی رازداں ہیں
وہ آدمی، نبضِ پیچ و تابِ حیات پر جس کی انگلیاں ہیں
وہ آدمی، جس کا جامِ الفت، خنک ستارے پیے ہوئے ہیں
وہ آدمی، گرد و پیش جس کے فرشتے حلقہ کیے ہوئے ہیں
وہ آدمی، جس کے پاک دل میں پیامِ فطرت چھپا ہوا ہے
وہ آدمی، جس کا گرم ناخن ربابِ ہستی کو چھو رہا ہے
وہ آدمی، جو شمیمِ گل سے علوم کے پھول چُن رہا ہے
وہ آدمی، جو ہوا کی رو میں خدا کا پیغام سُن رہا ہے
اگرچہ نقشِ قدم پر اس کے ازل سے سجدے میں آسماں ہیں
مگر غضب تو یہ ہے جہاں میں اسی سے بے اعتنائیاں ہیں
بہت سے گزرے ہیں یوں تو انساں خرد کی شمع جلانے والے
بتوں کی ہیبت اٹھانے والے، خدا کا سکہ بٹھانے والے
مگر عرب کے خموش افق سے کرن وہ پھوٹی رسول بن کر
کہ جتنے ظلمت کے خار و خس تھے دہک اٹھے سرخ پھول بن کر
ابھی تک انکار پر مصر ہے، دماغ مختل ہے کافری کا
نظامِ قدرت سے ہے نمایاں ثبوت اس کی پیمبری کا
کوئی فلاحت کا ہے وہ ماہر؟ کہ یہ حقیقت کرے ہویدا
کہ خار کے تخم نے کیا ہے کئی صدی میں گلاب پیدا
کوئی نظیر اس کی مل سکے گی؟ کہ آگ پانی سے جل سکی ہے؟
زمین چھٹکا سکی ہے تارے؟ چٹان موتی اگل سکی ہے؟
کبھی کوئی جنس اپنی ضد کی طرف بتا دو اگر پھری ہے؟
کلی سے شعلے کبھی اٹھے ہیں، شرر سے شبنم کبھی گری ہے؟
دیارِ باطل کے کارواں کو سراغِ دین و ملل ملا ہے؟
کسی کو خشکی کا بیج بو کر کبھی سمندر کا پھل ملا ہے؟
سرشت جو خشت کی نہ سمجھے، مزاج جو سنگ کا نہ جانے
زبان اس کی سنا سکے گی ستون و محراب کے فسانے؟
وہ خفتہ معمار، جو نہ جانے کہ فنِ تعمیر کیا بلا ہے
محل کا کیا ذکر، اک گھروندا بھی زندگی میں بنا سکا ہے؟
بنا سکے گا بھی وہ اگر کچھ، نہ رہ سکے گا نشان اس کا
رہے گا مٹی کا ڈھیر ہو کر ضرور اک دن مکان اس کا
اسی طرح وہ، جو دوسروں کی بہارِ حکمت کا خوشہ چیں ہے
اسی طرح وہ، جو کہہ رہا ہے 'نبی ہوں' لیکن نبی نہیں ہے
وہ ایک پودا ہے باغِ عالم میں جو مسلسل نہ پھل سکے گا
کبھی اس آشفتہ سر کا مذہب جہاں میں صدیوں نہ چل سکے گا
بھلا یہ ممکن ہے کذب پر ہو مدار اک دینِ مستقل کا؟
گراں بہا وقت کی جبیں پر نشاں ہو اک پائے مضمحل کا
دروغ، اور یہ فروغ پائے دلوں پہ حاصل ہو بادشاہی!
اور اس کی حقانیت پہ صدیوں کروروں انسان دیں گواہی
یہ ہم نے مانا کہ جھوٹ کو بھی فروغ ہوتا ہے لیکن اتنا
سبک شگوفوں سے چھیڑ کررتا، گذر گیا اک ہوا کا جھونکا
مگر وہ ہستی جو آج لاکھوں خدا کے بندوں کی حرزِ جاں ہے
وہ محض اک شعبدہ ہو! ناداں! بتا فراست تری کہاں ہےِ؟
سراب کو لاکھ کوئی پوجے، پر ایک قطرہ نہ پی سکے گا
یہ یاد رکھو دروغ صدیوں نہ جی سکا ہے، نہ جی سکے گا
خدا کے وہ بے شمار بندے کہ مستحق ہیں نوازشوں کے
رہیں وہ صیدِ زبوں مسلسل ذلیل و ناپاک سازشوں کے!
اگر یہ مان لیں کہ دنیا طلسم خانہ ہے شیطنت کا
مذاق اڑانا پڑے گا ہم کو خدا کے ذوقِ ربوبیت کا
دروغ میں سب سے ہو جو بڑھ کر، وہی خدائی کا رہنما ہے
اگر یہ سچ ہے تو پھر خدا کا جلال محض اک ڈھکوسلا ہے!
سنو! کہ جھوٹا کبھی نہ ہوگا جو دل میں رکھتا ہے کوئی جوہر
اگر ہے شک، تو نگاہ ڈالو خصوصیاتِ پیمبری پر
وہ روح، بنیاد کہہ سکیں ہم جسے اک آئینِ مستقل کی
ہمیشہ ڈوبی ہوئے ملے گی خموش گہرائیوں میں دل کی
بقائے انسانیت کی خاطر جو قلب، جویائے راز ہوگا
نظامِ تخلیق و روحِ عالم سے محوِ راز و نیاز ہوگا
وہ پاک ہستی، جو نوعِ انساں کی فکر میں بے قرار ہوگی
بشر کی پنہاں ترین حس سے نگاہ اس کی دوچار ہوگی
سدا منقش ہیں اس کے دل پر عظیم اشکالِ آسمانی
ہمیشہ پیشِ نظر ہے اس کے کشاکشِ مرگ و زندگانی
جلاتا رہتا ہے تازہ شمعیں وہ ہر نفس، بزمِ آب و گل میں
سوالِ علم و عمل کا شعلہ لرزتا رہتا ہے اس کے دل میں
جو ان حقائق میں غرق ہوگا، بھلا وہ حد سے گذر سکے گا؟
جو رازِ فطرت سے آشنا ہو، وہ جھوٹ برداشت کر سکے گا؟
پس ان دلائل کی روشنی میں ضرور یہ ماننا پڑے گا
کہ ہے پیغامِ خدائے برتر، پیام پیغمبرِ عرب کا
سنے ہوئے اس پیامِ حق کو اگرچہ صدیاں گذر چکی ہیں
بہت سی قومیں ابھر کے ڈوبیں، ہزاروں جی جی کے مر چکی ہیں
مگر حروف اس کے ہیں کہ اب تک اسی طرح سے جھلک رہے ہیں
ہر ایک نقطے میں زندگی کے ہزاروں شعلے بھڑک رہے ہیں
کبھی تو کر غور اپنے جی میں کہ اس روش میں یہ بات کیوں ہے
اگر یہ شے عینِ حق نہیں ہے تو پھر یہ رنگِ ثبات کیوں ہے
اگر یہ مصحف نہیں تو ہاتھوں پہ کیوں مشیت لیے ہوئے ہے؟
اگر غلط ہے تو کیا خدا کا جلال سازش کیے ہوئے ہےِ؟
اگر یہ بے جان مسئلہ ہے تو زندگی کا یہ جوش کیوں ہے؟
اگر یہ تکذیب کا ہے شایاں، زبانِ فطرت خموش کیوں ہے؟
جو جانچنا ہے تو کیوں نہ پھر ہم ہر ایک پہلو کو دیکھیں بھالیں؟
ثبوتِ پیغمبری کی خاطر، عرب پر آؤ نگاہ ڈالیں!
عرب، وہ ریگِ رواں کا عالم، سراب کی ہولناک دنیا!
وہ سرخ ذرات کا سمندر، تپش کا وہ خوفناک صحرا!
وہ مسندِ بوقبیس و فاراں، وہ مسند و تختِ شاہِ خاور
جہانِ جنگ و جدال و غارت، مقامِ تیغ و سنان و خنجر
حدودِ امن و اماں سے باہر، لباسِ شائستگی سے عاری
گرج سے افلاک زلزلے میں، کڑک سے لرزاں زمین ساری
سفید، اندیشۂ وغا سے، سیاہ گردِ مبارزت سے
برادری سے جہاں کی خارج، الگ شعارِ معاشرت سے
زمینِ فتنہ، دیارِ شورش، مقامِ گریہ، محلِّ زاری
نہ علمِ ظاہر، نہ نورِ باطن، نہ حبِ انساں، نہ خوفِ باری!
وہ گرم پست و بلند ٹیلے، وہ ہولِ بادِ سموم و طوفاں
وہ رعبِ جبروتِ شاہ خاور، وہ بخل و امساکِ ابر و باراں
دروں میں وہ ایک دبدبے سے قطارِ اشتر قدم جمائے
ادھر ادھر وہ جہالِ سرکش، غرور سے گردنیں اٹھائے
غضب ہے آبادیوں کے باہر، ادھر دہکتی ہوئی چٹانیں
ستم ہے آبادیوں کے اندر، ادھر کڑکتی ہوئی کمانیں
یہ ملک، اور اک یتیم بچہ، نہ کوئی وارث، نہ کوئی والی
سرہانے اک پیرِ سال خوردہ، اسیرِ صد ضعف و خستہ حالی
نہ باپ سر پر، نہ ماں کا سایہ، بلانصیب و ستم رسیدہ
مقامِ حیرت کا رہنے والا، نہ شاد و فرحاں، نہ آبدیدہ
کتاب سے نابلد، معرا، فیوضِ تعلیم و تربیت سے
کھلیں جو آنکھیں تو بند پائی مدد کی ہر راہ شش جہت سے
پلا ہو بے باپ کا جو بچہ! عرب میں اور پھر اس ابتری سے
اگر پیمبر نہیں، تو واقف ہوا وہ کیونکر پیمبری سے؟
پیامِ بیگانۂ تمدن، بنائے تہذیب ڈالتا ہے؟
دماغِ پروردۂ بیاباں، جہاں کو سانچے میں ڈھالتا ہے؟
وہ طفل، پروان جو چڑھا ہو دیارِ اصنامِ آذری میں
صدائے توحید سے وہ ڈالے شگاف محرابِ کافری میں!
اگر صدا اس نبیِ امّی کی آسمانی صدا نہیں ہے
تو پھر کہاں سے یہ فیض پہنچا؟ جواب اس بات کا نہیں ہے
عرب کے ہیرو، عجم کے سلطاں، نظامِ ارض و سما کے والی
زمیں پہ لطف و کرم کی تو نے عجب بنائے لطیف ڈالی
چلا جو دوشِ صبا پہ تیرا پیام ابرِ بہار بن کر
تمام باطل کے سنگریزے مہک اٹھے برگ و بار بن کر
مشیتِ ایزدی کے دل سے بنا ہے شاید دماغ تیرا
وگرنہ کیوں طاقِ بادِ صرصر میں جل رہا ہے چراغ تیرا؟
دبے ہیں سینے میں، زندگی کے بہت سے جوہر ابھرنے والے
ادھر بھی ہاں اک نظر خدارا، دلوں کے بیدار کرنے والے
(جوش ملیح آبادی)