پیلٹ گن مارتی نہیں زندہ لاش بنا دیتی ہے‘

ربیع م

محفلین
پیلٹ گن مارتی نہیں زندہ لاش بنا دیتی ہے‘
  • 21 جولائ 2016
شیئر
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سکیورٹی فورس مظاہرین کو منتشرکرنے کے لیے پیلٹ گن یعنی چھرے والی بندوق کا استعمال کر رہے ہیں۔

یہ بندوق جان لیوا نہیں ہے لیکن ان بندوقوں کے سبب کئی مظاہرین کو شدید چوٹیں لگی ہیں۔

کئی بار مظاہرین کے پاس کھڑے ہوئے لوگ بھی ان سے زخمی ہوئے ہیں اس سے بہت سے لوگوں کی آنکھوں کی روشنی تک چلی گئی ہے۔

پیلٹ گن کیا ہے؟
یہ پمپ کرنے والی بندوق ہے جس میں کئی طرح کے کارتوس استعمال ہوتے ہیں۔یہ کارتوس 5 سے 12 کی رینج میں ہوتے ہیں، پانچ کو سب سے زیادہ خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ اس کا اثر کافی دور تک ہوتا ہے۔

160718190515_kashmir_pellet_guns_eye_injury_624x351_aarabuahmadsultan.jpg
Image copyrightAARABU AHMAD SULTAN
Image captionاس گن کے استعمال سے کئی لوگ اپنی بینائی کھو چکے ہیں
پیلٹ گن سے تیز رفتار چھوٹے لوہے کے بال فائر کیے جاتے ہیں اور ایک کارتوس میں ایسے لوہے کے 500 تک بال ہو سکتے ہیں۔

فائر کرنے کے بعد کارتوس ہوا میں پھوٹتے ہیں اور چھرے چاروں سمت میں جاتے ہیں۔

پیلٹ گن، عام طور سے شکار کے لیے استعمال کی جاتی ہیں، کیونکہ اس سے چھرے چاروں طرف بکھرتے ہیں اور شکاری کو اپنے ہدف پر نشانہ لگانے میں آسانی ہوتی ہے۔

160718185948_kashmir_pellet_guns_eye_injury_624x351_aarabuahmadsultan.jpg
Image copyrightAARABU AHMAD SULTAN
Image captionپیلٹ گن سے زخمی ہونے والی آنکھوں کا علاج بہت مہنگا ہے
لیکن کشمیر میں یہ گن انسانوں پر استعمال ہو رہی ہے اورلوگوں میں خوف پیدا کر رہی ہے۔

اس ہتھیار کو 2010 میں کشمیر میں بدامنی کے دوران سکیورٹی فورسز نے استعمال کیا تھا جس سے 100 سے زیادہ مظاہرین کی موت ہو گئی تھی۔

سکیورٹی فورس کیا کہتی ہیں؟
کشمیر میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے پبلک ریلشنز آفیسر راجیشور یادو کہتے ہیں کہ سی آر پی ایف کے جوان مظاہرین سے نمٹنے کے دوران’زیادہ سے زیادہ تحمل‘ برتتے ہیں۔

راجیشور یادو کہتے ہیں ’احتجاج کو ناکام کرنے کے لیے ہم 9 نمبر کی کارٹریجز (کارتوس) استعمال کرتے ہیں اس کا کم سے کم اثر ہوتا ہے اور یہ مہلک نہیں ہے‘۔

160718185340_kashmir_pellet_guns_eye_injury_624x351_aarabuahmadsultan.jpg
Image copyrightAARABU AHMAD SULTAN
Image captionپیلٹ گن سے زخمی ہونے والوں کی بینائی واپس آنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے
لیکن یادو کی بات سے اتفاق نہ کرنے والے ایک اعلیٰ پولیس افسران اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ سکیورٹی فورسز کو مجمے کو منتشر کرنے کے لیے 12 نمبر کے کارتوس استعمال کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا ہے کہ بہت ہی مشکل حالات میں نمبر 9 کارتوس کا استعمال ہونا چاہیے۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جاری تازہ مظاہروں کے دوران دو افراد کی موت ایسی ہی گنز سے ہوئی ہے۔لوگوں نے پیلٹ گنز کے استعمال پر سوال اٹھائے ہیں.

جو لوگ پیلٹ گن کے استعمال سے زخمی ہوتے ہیں، ان کو گھر والوں کو علاج کے لیے کشمیر کے باہر لے جانا پڑتا ہے۔

160718185047_kashmir_pellet_guns_eye_injury_624x351_aarabuahmadsultan.jpg
Image copyrightAARABU AHMAD SULTAN
Image captionشکار کے لیے استعمال ہونے والی اس گن کو کشمیر میں انسانوں پر اسستعمال کیا جا رہا ہے
شمالی کشمیر کے بارہ مولہ علاقے کے رہنے والے کبیر کی پیلٹ گن سے زخمی ہونے کے بعد دونوں آنکھوں کی روشنی چلی گئی ہے.

کبیر کے خاندان کو اس کے علاج کے لیے کافی رقم کا انتظام کرنا پڑا ان کے والد سڑک کے کنارے ریڑی لگا کر بہت ہی مشکل سے گھر چلاتے ہیں.

کبیر کی ماں کہتی ہیں،’مجھے اپنے زیورات فروخت پڑے تاکہ کشمیر کے باہر علاج کا خرچ اٹھایا جا سکے، وہ بھی ناکافی رہا اور ہمیں اپنے رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے پیسے قرضے لینے پڑے‘۔

اسی سال مارچ میں 15 سالہ عابد میر کو اس وقت پیلٹ گن سے چوٹ لگی جب وہ ایک شدت پسند کی تدفین سے واپس آ رہے تھے۔

160714133622_eye_injuries_kashmir_512x288_afp.jpg
Image copyrightAFP
Image captionکشمیر میں پیلٹ ان کے شکار لوگوں کو علاج مہنگا ہونے کے سبب شدید دشواریوں کا سامنا ہے
میر کے خاندان کو دوسروں سے ادھار مانگ کر اپنے بیٹے کا علاج کرانا پڑا. کشمیر میں ٹھیک طریقے سے علاج نہ ہو پانے کی وجہ ان لوگوں نے امرتسر میں علاج کرنے کا فیصلہ کیا۔

میر کے چچا کا کہنا ہے کہ ’انہیں علاج میں تقریباً دو لاکھ روپے خرچ کرنے پڑے‘۔

’مردوں کی طرح جینے سے موت بہتر‘
جن لوگوں کی پیلٹ گنز لگنے سےبینائی مکمل طور پر چلی جاتی ہے، وہ ذہنی جھٹکا، مایوسی اور ڈپریشن میں ڈوب جاتے ہیں۔

ایک پل میں ان کی زندگی مکمل طور پر تبدیل ہو جاتی ہے۔

ڈار گریجویشن کے آخری سال میں تھے جب ان کی آنکھیں پیلٹ سے زخمی ہوئیں۔

ڈار کہتے ہیں، ’مجھے پانچ مرتبہ سرجری کرانی پڑی اور تقریباً ایک سال تک میں مکمل اندھیرے میں رہا۔ اب میری بائیں آنکھ میں تھوڑی روشنی واپس آئی ہے‘۔

انھوں نے کہاجب میری آنکھوں کی روشنی چلی گئی تو میں اکثر اوپر والے سے دعا کرتا تھا کہ وہ مجھے مار ہی ڈالے کیونکہ مردوں کی طرح زندہ رہنے کی بجائے موت بہتر ہے‘۔


ماخذ
 

ربیع م

محفلین
کشمیر میں چھرّوں کے استعمال پر شدید تشویش
  • 19 جولائ 2016
شیئر
160719114725_kashmir_pellets_injuries_640x360_aarabuahmadsultan_nocredit.jpg
Image copyrightAARABU AHMAD SULTAN
Image captionسرینگر ہسپتال جہاں انشا مشتاق زیر علاج ہیں ایسی دردناک اور کرب کی کہانیوں سے بھرا ہوا ہے
انڈیا کے زیر انتظام جنوبی کشمیر کی رہائشی چودہ سالہ انشا مشتاق اس وقت سرینگر کے ہسپتال میں انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں بستر پر شدید تکلیف میں ہیں اور ان کی والدہ رضیہ بیگم بے یار و مددگار ان کے پاس بیٹھی ہیں۔

انشا مشتاق کا چہرہ سوجنے کے بعد مکمل طور پر بگڑ گیا ہے اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان کی حالت نازک ہے۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسند کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کے دوران مظاہرین پر انڈین سکیورٹی فورسز کی جانب سے فائرنگ کی گئی جس میں انشا فاطمہ کو بڑی تعداد میں چھرے لگے تھے۔

ان کے والد مشتاق احمد ملک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انشا دیگر خاندان والوں کے ساتھ اپنے گھر کی پہلی منزل پر تھیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’میں نماز پڑھنے مسجد گیا تھا۔ انشا نے جیسے ہی کھڑکی سے باہر جھانکا تو سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے اہلکار نے انتہائی قریب سے ان پر چھرے فائر کیے۔‘

160719114822_kashmir_pellet_gun_624x351_ap_nocredit.jpg
Image copyrightAP
Image captionپولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پہلی مرتبہ اس قسم کی گن کا بطور غیر مہلک ہتھیار استعمال سنہ 2010 میں کیا گیا تھا
امراضِ چشم کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر طارق قریشی نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’انشا مشتاق کی دونوں آنکھوں کو شدید نقصان پہنچا ہے اور وہ اب دوبارہ بینائی حاصل نہیں کر پائیں گی۔‘

ڈاکٹر طارق قریشی نے مزید بتایا کہ ’ہمارے پاس ایسے تقریباً 117 کیسز آئے ہیں۔ ان میں سے سات لوگ چھروں کی وجہ سے بینائی کھو بیٹھے ہیں جبکہ دیگر 40 افراد کو آنکھوں پر معمولی زخم آئے جنھیں طبی امداد دینے کے بعد گھر بھیج دیا گیا۔‘

چھروں والی بندوق (پیلیٹ گن) ایک شاٹ گن ہوتی ہے جسے عام طور پر جانوروں کو شکار کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پہلی مرتبہ اس قسم کی گن کا بطور غیر مہلک ہتھیار استعمال سنہ 2010 میں کیا گیا تھا۔

اس بندوق سے ایک وقت میں بڑی تعداد میں گول چھرے فائر کیے جاتے ہیں جو انتہائی تیزی کے ساتھ نکلتے ہیں۔

پیلیٹ گن کے کارتوس میں تقریباً پانچ سو چھرے ہوتے ہیں۔ جب کارتوس پھٹتا ہے تو چھرے ہر طرف پھیل جاتے ہیں۔

160719115000_kashmir_pellet_injuries_624x351_aarabuahmadsultan_nocredit.jpg
Image copyrightAARABU AHMAD SULTAN
Image captionانشا مشتاق کا چہرہ سوجنے کے بعد مکمل طور پر بگڑ گیا ہے اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان کی حالت نازک ہے
عام گولی کی نسبت یہ کم مہلک ہوتے ہیں لیکن اس سے بھی شدید زخم آ سکتے ہیں خاص طور پر اگر یہ چھرے آنکھ میں لگیں۔

کشمیر میں چھروں سے آنے والے زخموں کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں نے اخبار انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ انھوں نے ’بے ڈھنگے اور نوکیلے چھرے دیکھے ہیں جن سے اس مرتبہ زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔‘

انڈیا کی سکیورٹی فورسز کو سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (ایس او پی) کے تحت کارروائی کرنی تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ انتہائی کشیدہ صورتحال میں ٹانگوں کا نشانہ بنایا جائے۔ تاہم 90 فیصد زخم وہ جسم کے اوپر کے حصوں پر آئے ہیں۔

کشمیر میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے ترجمان راجیشور یادو کا اس بات پر اسرار ہے کہ اہلکاروں نے ’مظاہرین سے نمٹنے میں کافی حد تک تحمل کا مظاہرہ کیا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’ہم نے ایک خصوصی کارتوس کا استعمال کیا جو کم اثر اور غیر مہلک ہے۔‘

لیکن بہت سے لوگ ان سے اتفاق نہیں کرتے۔

ایک ڈاکٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سرکاری فورسز نے جان بوجھ کر سینے اور سروں کو نشانہ بنایا۔ ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے ہلاک کرنے کے لیے نشانہ بنایا۔‘

160719115041_kashmir_pellet_injuries_624x351_aarabuahmadsultan_nocredit.jpg
Image copyrightAARABU AHMAD SULTAN
Image captionپیلیٹ گن کے کارتوس میں تقریباً پانچ سو چھرے ہوتے ہیں۔ جب کارتوس پھٹتا ہے تو چھرے ہر طرف پھیل جاتے ہیں
سرینگر ہسپتال جہاں انشا مشتاق زیر علاج ہیں ایسی دردناک اور کرب کی کہانیوں سے بھرا ہوا ہے۔

17 سالہ شبیر احمد ڈار کو نرس طبی امداد فراہم کر رہی ہیں اور ڈاکٹروں کو ڈر ہے کہ شبیر اپنی دائیں آنکھ کی بینائی کھو بیٹھیں گے۔

ان کے بیڈ کے قریب ہی موجود 16 سالہ عامر فیاض غنی نے بتایا کہ ’میں اپنے دوست کے گھر جا رہا تھا کہ کوئی چیز میری آنکھ پر زور سے آکر لگی۔‘

ڈاکٹروں کے خیال میں فیاض غنی خوش قسمت ہیں کیونکہ ان کی آنکھ بچائی جا سکتی ہے۔

ایسے زخمی اگر بچ بھی جائیں تو انھیں بڑے پیمانے پر مالی مشکلات اور ٹراما کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جیسا کہ 15 سالہ عابد میر کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ عابد میر کے گھر والوں کو اب ان کا علاج کروانے کے لیے مالی امداد کی ضرورت ہے، وہ انھیں ریاست پنجاب میں امرتسر کے ہسپتال لے گئے ہیں۔

ان کے گھر والوں نے بتایا کہ ’عابد کے علاج پر دو لاکھ روپے خرچ آیا ہے۔‘

ماخذ
 

جاسمن

لائبریرین
اللہ ظالموں کو اُن کے انجام تک پہنچائے۔ اللہ کشمیر کو عافیت کے ساتھ آزادی عطا فرمائے۔ اللہ زخمیوں اور بینائی سے محروم ہو جانے والوں کا مددگار ہو۔اللہ انہیں آسانیاں عطا فرمائے اور صحتِ کامل دے۔ آمین!
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اللہ ظالموں کو اُن کے انجام تک پہنچائے۔ اللہ کشمیر کو عافیت کے ساتھ آزادی عطا فرمائے۔ اللہ زخمیوں اور بینائی سے محروم ہو جانے والوں کا مددگار ہو۔اللہ انہیں آسانیاں عطا فرمائے اور صحتِ کامل دے۔ آمین!
آمین
 
Top