ندیم جاویدعثمانی
محفلین
پینٹنگ
مرے ڈرائنگ روم کی دیوار پر لٹکی ہوئی
اک پینٹنگ جس میں
اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہوئی
اک ماں ہے!
اُس کے چہرے پر بکھرے ہوئے ممتا کےرنگ
دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسےدُنیا
اُس کے بچے اوراُس کی ممتا میں سِمٹ آئ ہو
اور جب میرے دوست واحباب کبھی
میری بنائی ہوئی اس پینٹنگ کو دیکھتے ہیں
تو کوئی شاہکار تصور کرتا ہے اسے
تو کُچھ اسے آرٹ کا فن پارہ قرار دیتے ہیں
اور میں جانتا ہوں
آرٹ کے نام پر داد دیتے ہوئے ان لوگوں میں سے
کس کی نظریں آرٹ پرہیں
اور کس کی نگاہ ٹکی ہے جسم کے برہنہ حصے پر!
اپنی شرافت کے پائجاموں میں گُھسے یہ شُرفأ
اپنی ’تسکینِ‘ نظر کی خاطر
بدنام گلیوں میں جانے سے کہیں بہتر
آرٹ گیلریز میں پھرنے کو ترجیح دیتےہیں
انھیں خبر ہے کہ آرٹ کے نام پر اگر یہ
کسی تصویر کو گھنٹوں دیکھیں
یااُس کے کسی حصے کی تعریف کریں
ان کی شرافت پر کوئی اُنگلی نہیں اُٹھنے والی!
اور جب ایسی ہی نظریں
اپنی اس تخلیق پراُٹھتے ہوئے دیکھتا ہوں
تومیری نگاہ میں اُس دن کا ہر منظرجاگ اُٹھتا ہے
جس روز اپنی تسکینِ فن کی خاطرمیں نے
اک ’ماں‘اور اُس کی ’ممتا‘ سے سودا کیا تھا
اپنے بچے کو دودھ پلانے کی خاطر
اُسے پہلے اپنا پیٹ بھرنا تھا
اور یوں یہ تصویر تخلیق ہوئی جس نے اپنے اندر
اک ماں کی ممتا،
اک بچے کی بھوک،
اور اک شہُرت کے بھوکے کی
داستان چُھپارکھی ہے!
اور اب جب کبھی اس’پینٹنگ ‘ کے حوالے سے
جب کوئی جملہ میری سماعت سے ٹکراتا ہے
تو مرے اندرکہیں دُور، بہت دُور
کُچھ ٹوٹ جاتا ہے
اُس ’ماں‘ کے جسم کے برہنہ حصے کو
داد دیتی ہوئی ان نظروں کوجب بھی دیکھتا ہوں
تو اُس دیوار پر
مُجھے اپنا وجود
ننگا لٹکا ہوا نظرآتاہے!!!
ندیم جا وید عُثمانی
مرے ڈرائنگ روم کی دیوار پر لٹکی ہوئی
اک پینٹنگ جس میں
اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہوئی
اک ماں ہے!
اُس کے چہرے پر بکھرے ہوئے ممتا کےرنگ
دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسےدُنیا
اُس کے بچے اوراُس کی ممتا میں سِمٹ آئ ہو
اور جب میرے دوست واحباب کبھی
میری بنائی ہوئی اس پینٹنگ کو دیکھتے ہیں
تو کوئی شاہکار تصور کرتا ہے اسے
تو کُچھ اسے آرٹ کا فن پارہ قرار دیتے ہیں
اور میں جانتا ہوں
آرٹ کے نام پر داد دیتے ہوئے ان لوگوں میں سے
کس کی نظریں آرٹ پرہیں
اور کس کی نگاہ ٹکی ہے جسم کے برہنہ حصے پر!
اپنی شرافت کے پائجاموں میں گُھسے یہ شُرفأ
اپنی ’تسکینِ‘ نظر کی خاطر
بدنام گلیوں میں جانے سے کہیں بہتر
آرٹ گیلریز میں پھرنے کو ترجیح دیتےہیں
انھیں خبر ہے کہ آرٹ کے نام پر اگر یہ
کسی تصویر کو گھنٹوں دیکھیں
یااُس کے کسی حصے کی تعریف کریں
ان کی شرافت پر کوئی اُنگلی نہیں اُٹھنے والی!
اور جب ایسی ہی نظریں
اپنی اس تخلیق پراُٹھتے ہوئے دیکھتا ہوں
تومیری نگاہ میں اُس دن کا ہر منظرجاگ اُٹھتا ہے
جس روز اپنی تسکینِ فن کی خاطرمیں نے
اک ’ماں‘اور اُس کی ’ممتا‘ سے سودا کیا تھا
اپنے بچے کو دودھ پلانے کی خاطر
اُسے پہلے اپنا پیٹ بھرنا تھا
اور یوں یہ تصویر تخلیق ہوئی جس نے اپنے اندر
اک ماں کی ممتا،
اک بچے کی بھوک،
اور اک شہُرت کے بھوکے کی
داستان چُھپارکھی ہے!
اور اب جب کبھی اس’پینٹنگ ‘ کے حوالے سے
جب کوئی جملہ میری سماعت سے ٹکراتا ہے
تو مرے اندرکہیں دُور، بہت دُور
کُچھ ٹوٹ جاتا ہے
اُس ’ماں‘ کے جسم کے برہنہ حصے کو
داد دیتی ہوئی ان نظروں کوجب بھی دیکھتا ہوں
تو اُس دیوار پر
مُجھے اپنا وجود
ننگا لٹکا ہوا نظرآتاہے!!!
ندیم جا وید عُثمانی