سارا
محفلین
اخبار جہاں میں ایک مراسلہ دیکھا کہ وطن عزیز میں ایک سرجن نے ایک مریض کا آپریشن کیا اور وہ صاحب تندرست ہو کر ٹانکے لگوا کر گھر چلے گئے۔۔لیکن تھوڑی دیر بعد پیٹ میں درد کی شکایت شروع کر دی۔۔عزیزوں نے سوڈا واٹر پلوایا۔۔چورن کھلوایا۔۔لیکن شکایت رفع نہ ہوئی اسی عطار سے۔۔ یعنی اسی ڈاکٹر سے رجوع کیا تو اس نے کہا۔۔
''بابا میرا کام آپریشن کرنا ہے پیٹ کا درد دور کرنا نہیں ہے۔۔معلوم ہوتا ہے مریض کو وہم ہے اور اس کا علاج جدید ڈاکٹری میں کیا'قدیم طب تک میں نہیں ہے۔۔اس کے آگے حکیم لقمان تک جو زنانہ و مردانہ' پچیدہ و غیر پچیدہ' سنجیدہ و غیر سنجیدہ ' دیرینہ و غیر دیرینہ امراض کے مریضوں کا آخری سہارا تھے۔۔لاچار تھے۔۔
عزیزوں کے پر زرو اصرار پر ایکسرے کرایا گیا تو آنتوں کے درمیان ایک قینچی نظر آئی۔۔آپریشن کرنے والے ڈاکٹر نے کہا۔۔
بابا یہ بھی تمہارا واہمہ ہے ۔۔پیٹ کے اندر بعض ہڈیاں قینچی کی شکل کی ہوتی ہیں۔۔
لیکن آجکل زمانہ ایسا آن لگا ہے کہ لوگ ڈاکٹر کی زبان کا کم ایکسرے کا زیادہ اعتبار کرتے ہیں۔۔حالانکہ ڈاکٹر صاحب اپنے فن کے ماہر ہیں جس کی شہادت ان کے مریض دیں گے جن میں سے آدھے اس دنیا میں ہیں ۔۔آدھے اُس دنیا میں بے تابی سے ان کا انتظار کر رہے ہیں۔۔
آخر ایک دوسرے سرجن نے ان کا آپریشن کیا اور اسے حسنِ اتفاق کہیے کہ قینچی نکل بھی آئی۔۔
*****
اتنی سی بات تھی جسے لوگوں نے یعنی مذکورہ مریض کے لواحقین نے جو بصورت دیگر ان کے پسماندگان کہلاتے'افسانہ کر دیا۔۔آخر قینچی ہی تو تھی کلہاڑا تو نہیں تھا اور یہ پہلے ڈاکٹر کی دیانت اور سیر چشمی نہیں تو کیا ہے کہ انہوں نے قینچی کو دیکھ کر کہا۔۔
یہ میری نہیں ہے۔۔مریض چاہے تو اسے اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔۔
اگر بالفرض یہ ان ڈاکٹر صاحب کی تھی بھی تو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے مریض کے پیٹ میں اپنی طرف سے کچھ ڈالا ہی' نکالا تو نہیں۔۔اگر مریض کے پیٹ میں پہلے سے قینچی ہوتی اور ڈاکٹر صاحب اسے نکال کر اپنی جیب میں ڈال لیتے تو البتہ اعتراض کی بات ہوتی ۔۔مریض کو تو خوش ہونا چاہیے کہ اسے بیٹھے بٹھائے اتنی اچھی چیز مل گئی۔۔ہم نے پچھلے دنوں آپریشن کروایا اس میں تو کچھ نہیں نکلا جو ہمارے کام آ سکتا۔۔بہرحال یہ اپنی اپنی قسمت ہے۔۔
قینچی کے بڑے فائدے ہیں۔۔اس سے بال کاٹے جا سکتے ہیں۔۔مونچھیں تراشی جا سکتی ہیں۔۔کان کاٹے جا سکتے ہیں۔۔ناخن کاٹے جا سکتے ہیں۔۔لوگوں کے کپڑے کاٹے جا سکتے ہیں۔۔پورے کپڑوں کے علاوہ خالی جیبیں بھی کاٹی جا سکتی ہیں اور بے روزگاری کا مسلئہ حل کیا جا سکتا ہے۔۔اس کے علاوہ کسی کارخانے کا فیتہ وغیرہ کاٹنے کے لیے بھی قینچی درکار ہوتی ہے اس کے بغیر کارخانہ نہیں چل سکتا۔۔گویا ساری مشین ایک طرف اور قینچی ایک طرف۔۔انسان کا رشتہء حیات جلد قطع کرنے کے لیے سگرٹ مجرب اور آزمودہ چیز ہے ۔۔شاید اسی لیے مشہور سگریٹ کا نام قینچی رکھا گیا۔۔۔
ٌٌٌٌ*****
ٌٌٌٌٌاس معاملے کا ایک قانونی پہلو بھی ہے اس مریض سے دریافت کرنا چاہیے کہ اس نے اتنے دن یہ قینچی کیوں اپنے پیٹ میں چھپائے رکھی ؟ یہ اسپتال کی جائیداد تھی۔۔مریض کے باوا کا مال نہیں تھا۔۔اسپتال میں اس کی کسی بھی وقت ضرورت پڑ سکتی ہے۔۔کسی نرس کو اپنے ناخن کاٹنے ہوں بھویں تراشنی اور چتون تیکھی کرنی ہو'کسی ڈاکٹر کو اخبار سے معمہ کاٹنا ہو کہ آپریشن بھی کرتے جائیں 'دل بہلانے کے لیے غور و فکر بھی کرتے جائیں کہ ذیل کے فقرے میں
اکبر کے زمانے میں۔۔۔۔۔۔اور بکری ایک گھاٹ پانی پیتے تھے۔۔خالی جگہ میں لفظ ''شیر'' رکھنا زیادہ مناسب ہوگا یا''بھیڑ'' زیادہ موزوں رہے گا۔۔جو محاورے سے دور لیکن عقل کے زیادہ قریب ہے۔۔بہرحال اس مریض کے خلاف پرچا کٹنا چاہیے اور اسی قینچی سے کٹنا چاہیے تاکہ آئیندہ کوئی مریض 'چھری 'قاچو' قینچی' بستر کی چادر 'تکیہ 'ڈاکٹر صاحب کی عینک'اسٹیتھسکوپ 'نرس کی نیل پالش یا لپ اسٹک 'وارڈ بوائے کی نسوار کی ڈبیہ یا فلمی گانوں کی کاپی اٹھا کر پیٹ میں نہ رکھ لے۔۔آجکل کے مریضوں کا کچھ اعتبار نہیں۔۔ایک مریض کے تو پیٹ سے آپریشن کرنے پر داڑھی نکلی ۔۔تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ ان کی اپنی نہیں تھی۔۔اس ڈاکٹر کی تھی جنہوں نے کہیں پہلے ان کا آپریشن کیا تھا۔۔بے چارے بہت دنوں لوگوں سے منہ چھپائے پھرتے رہے جب تک کہ نئی داڑھی نہیں آگئی۔۔''
''انشا جی''
''بابا میرا کام آپریشن کرنا ہے پیٹ کا درد دور کرنا نہیں ہے۔۔معلوم ہوتا ہے مریض کو وہم ہے اور اس کا علاج جدید ڈاکٹری میں کیا'قدیم طب تک میں نہیں ہے۔۔اس کے آگے حکیم لقمان تک جو زنانہ و مردانہ' پچیدہ و غیر پچیدہ' سنجیدہ و غیر سنجیدہ ' دیرینہ و غیر دیرینہ امراض کے مریضوں کا آخری سہارا تھے۔۔لاچار تھے۔۔
عزیزوں کے پر زرو اصرار پر ایکسرے کرایا گیا تو آنتوں کے درمیان ایک قینچی نظر آئی۔۔آپریشن کرنے والے ڈاکٹر نے کہا۔۔
بابا یہ بھی تمہارا واہمہ ہے ۔۔پیٹ کے اندر بعض ہڈیاں قینچی کی شکل کی ہوتی ہیں۔۔
لیکن آجکل زمانہ ایسا آن لگا ہے کہ لوگ ڈاکٹر کی زبان کا کم ایکسرے کا زیادہ اعتبار کرتے ہیں۔۔حالانکہ ڈاکٹر صاحب اپنے فن کے ماہر ہیں جس کی شہادت ان کے مریض دیں گے جن میں سے آدھے اس دنیا میں ہیں ۔۔آدھے اُس دنیا میں بے تابی سے ان کا انتظار کر رہے ہیں۔۔
آخر ایک دوسرے سرجن نے ان کا آپریشن کیا اور اسے حسنِ اتفاق کہیے کہ قینچی نکل بھی آئی۔۔
*****
اتنی سی بات تھی جسے لوگوں نے یعنی مذکورہ مریض کے لواحقین نے جو بصورت دیگر ان کے پسماندگان کہلاتے'افسانہ کر دیا۔۔آخر قینچی ہی تو تھی کلہاڑا تو نہیں تھا اور یہ پہلے ڈاکٹر کی دیانت اور سیر چشمی نہیں تو کیا ہے کہ انہوں نے قینچی کو دیکھ کر کہا۔۔
یہ میری نہیں ہے۔۔مریض چاہے تو اسے اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔۔
اگر بالفرض یہ ان ڈاکٹر صاحب کی تھی بھی تو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے مریض کے پیٹ میں اپنی طرف سے کچھ ڈالا ہی' نکالا تو نہیں۔۔اگر مریض کے پیٹ میں پہلے سے قینچی ہوتی اور ڈاکٹر صاحب اسے نکال کر اپنی جیب میں ڈال لیتے تو البتہ اعتراض کی بات ہوتی ۔۔مریض کو تو خوش ہونا چاہیے کہ اسے بیٹھے بٹھائے اتنی اچھی چیز مل گئی۔۔ہم نے پچھلے دنوں آپریشن کروایا اس میں تو کچھ نہیں نکلا جو ہمارے کام آ سکتا۔۔بہرحال یہ اپنی اپنی قسمت ہے۔۔
قینچی کے بڑے فائدے ہیں۔۔اس سے بال کاٹے جا سکتے ہیں۔۔مونچھیں تراشی جا سکتی ہیں۔۔کان کاٹے جا سکتے ہیں۔۔ناخن کاٹے جا سکتے ہیں۔۔لوگوں کے کپڑے کاٹے جا سکتے ہیں۔۔پورے کپڑوں کے علاوہ خالی جیبیں بھی کاٹی جا سکتی ہیں اور بے روزگاری کا مسلئہ حل کیا جا سکتا ہے۔۔اس کے علاوہ کسی کارخانے کا فیتہ وغیرہ کاٹنے کے لیے بھی قینچی درکار ہوتی ہے اس کے بغیر کارخانہ نہیں چل سکتا۔۔گویا ساری مشین ایک طرف اور قینچی ایک طرف۔۔انسان کا رشتہء حیات جلد قطع کرنے کے لیے سگرٹ مجرب اور آزمودہ چیز ہے ۔۔شاید اسی لیے مشہور سگریٹ کا نام قینچی رکھا گیا۔۔۔
ٌٌٌٌ*****
ٌٌٌٌٌاس معاملے کا ایک قانونی پہلو بھی ہے اس مریض سے دریافت کرنا چاہیے کہ اس نے اتنے دن یہ قینچی کیوں اپنے پیٹ میں چھپائے رکھی ؟ یہ اسپتال کی جائیداد تھی۔۔مریض کے باوا کا مال نہیں تھا۔۔اسپتال میں اس کی کسی بھی وقت ضرورت پڑ سکتی ہے۔۔کسی نرس کو اپنے ناخن کاٹنے ہوں بھویں تراشنی اور چتون تیکھی کرنی ہو'کسی ڈاکٹر کو اخبار سے معمہ کاٹنا ہو کہ آپریشن بھی کرتے جائیں 'دل بہلانے کے لیے غور و فکر بھی کرتے جائیں کہ ذیل کے فقرے میں
اکبر کے زمانے میں۔۔۔۔۔۔اور بکری ایک گھاٹ پانی پیتے تھے۔۔خالی جگہ میں لفظ ''شیر'' رکھنا زیادہ مناسب ہوگا یا''بھیڑ'' زیادہ موزوں رہے گا۔۔جو محاورے سے دور لیکن عقل کے زیادہ قریب ہے۔۔بہرحال اس مریض کے خلاف پرچا کٹنا چاہیے اور اسی قینچی سے کٹنا چاہیے تاکہ آئیندہ کوئی مریض 'چھری 'قاچو' قینچی' بستر کی چادر 'تکیہ 'ڈاکٹر صاحب کی عینک'اسٹیتھسکوپ 'نرس کی نیل پالش یا لپ اسٹک 'وارڈ بوائے کی نسوار کی ڈبیہ یا فلمی گانوں کی کاپی اٹھا کر پیٹ میں نہ رکھ لے۔۔آجکل کے مریضوں کا کچھ اعتبار نہیں۔۔ایک مریض کے تو پیٹ سے آپریشن کرنے پر داڑھی نکلی ۔۔تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ ان کی اپنی نہیں تھی۔۔اس ڈاکٹر کی تھی جنہوں نے کہیں پہلے ان کا آپریشن کیا تھا۔۔بے چارے بہت دنوں لوگوں سے منہ چھپائے پھرتے رہے جب تک کہ نئی داڑھی نہیں آگئی۔۔''
''انشا جی''