پیپلز پارٹئ

آج جولائی 3 2008 جنگ اخبار میں دو کالم شائع ہوئے ہیں جو موجودہ عہد کی پیپلز پارٹی پر روشنی ڈالتے ہیں آپ بھی پڑھیے

پیپلز پارٹی میں بے چینی کی داخلی لہریں,,,,حرف تمنا…ارشاد احمد حقانی

انگریزی روزنامہ ”پاکستان ٹائمز“ کے ایک سابق ایڈیٹر جناب مظہر علی خان جنہوں نے نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات پر ایوب خان کے شب خون کے بعد بطور ایڈیٹر کام کرنے سے انکار کر دیا تھا اور جنہوں نے بعد میں ایک ہفت روزہ ”ویو پوائنٹ“ نکالا جو خان صاحب کی سوچ کے مطابق بائیں بازو کی پالیسیوں اور ملک میں جمہوری اقدار کے فروغ کے لئے کام کرتا تھا، ان کے ایک انتہائی صاحب صلاحیت صاحبزادے جناب طارق علی ان دنوں لندن میں مقیم ہیں اور دنیا کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں وہ صحیح معنوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور صاحب فکر و نظر ہیں۔ جب وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم تھے تو سٹوڈنٹس یونین کے صدر تھے۔ اس زمانے میں گورنمنٹ کالج کی یونین کبھی کبھی دلچسپ مذاکروں کا اہتمام بھی کرتی تھی ایک ایساہی مذاکرہ اس نے کرایا جو پرانے روانیز اور نئے راونیز یعنی کالج کے پرانے طالبعلموں اور موجودہ طالب علموں کے درمیان تھا۔ اس مباحثے میں ایک گروپ کی قیادت جناب مظہر علی خان کر رہے تھے اور دوسرے گروپ کی قیادت ان کے صاحبزادے طارق علی کر رہے تھے۔ مباحثے کا موضوع تھا ” لسی زیادہ بہتر مشروب ہے یا کوکا کولا“۔ اس مباحثے کی تفصیلات میرے آج کے موضوع سے خارج ہیں اس لئے میں ان کو چھوڑتا ہوں۔ طارق علی اپنی طالب علمی کے زمانے میں بائیں بازو کے طالب علموں کے غیر متنازع لیڈر تھے۔ ان کی سرگرمیاں ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کی آئینہ دار تھیں چنانچہ وہ توقعات کے عین مطابق اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک بڑے سیاسی مفکر کے طور پر ابھرے اور میں انہیں پاکستان کا ایک انتہائی قابل فخر سپوت سمجھتا ہوں۔ ا ن کی بعض تقریریں (جو پاکستان میں ہوئیں) میں نے سنی ہیں اور میں ان کی وسعت مطالعہ اور نظریاتی یکسوئی سے بہت متاثر ہوا۔ اب وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور امریکہ اور یورپ مزید برآں جنوبی امریکہ کی ایک جانی پہچانی علمی اور سیاسی شخصیت ہیں۔
وہ ایک بہت کامیاب براڈ کاسٹر بھی ہیں اور بی بی سی کے متعدد پروگراموں میں حصہ لیتے ہیں ان کی باتیں غور سے سنی جاتی ہیں۔ آج میں نے ان کا تذکرہ اس لئے کیا ہے کہ انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اس کے اسباب اورمضمرات اور نتائج پر کم از کم دو مضمون لکھے ہیں(میری نظر سے دونوں ہی گزرے ہیں ہو سکتا ہے کہ انہوں نے کوئی اورمضمون بھی لکھا ہو۔ ان مضامین میں سے ایک برطانوی اخبار ”گارڈین“میں اور دوسرا ”انڈی پینڈنٹ“ میں شائع ہوا ہے اور میری اطلاع کے مطابق یہ دونوں مضمون پاکستان میں کہیں نہیں چھپے۔ کم از کم میری نظر سے نہیں گزرے لیکن میں نے یہ دونوں مضامین لندن میں مقیم اپنے بیٹے سے منگوا کر پڑھے ہیں۔ یہ دونوں مضمون ہیں تو اس قابل کہ انہیں ہوبہو ہمارے ہاں شائع کیا جائے لیکن شاید بعض اخبارات کی مجبوریوں نے انہیں یہ مضامنین شائع کرنے کا حوصلہ نہ دیا ہو یا وہ طارق علی سے نظریاتی اختلاف کی وجہ سے ان کے مضامین چھاپ کر انہیں نمایاں نہ کرنا چاہتے ہوں۔ بہرکیف آج میں ان کے دوسرے مضمون جو ”انڈی پینڈنٹ“ اخبار میں چھپا اور جس کی تاریخ اشاعت 31دسمبر2007ء یعنی بی بی کی شہادت کے چار دن بعد تھی سے ایک اقتباس پیش کر رہا ہوں جن میں بطور خاص پاکستان پیپلز پارٹی کے دانشوروں کے لئے غور و فکر کا بڑا سامان ہے۔ طارق علی لکھتے ہیں:
A triumvirate consisting of her husband, Asif Zardari (One of the most venal and discredited politicians in the country and still facing corruption charges in three European courts) and two ciphers will run the party till Benazir's 19-year-old son, Bilawal, comes of age. He will then become chairperson- for- life and, no doubt, pass it on to his children. The fact that this is now official does not make it any less grotesque. The Pakistan People's Party is being treated as a family heirloom, a property to be disposed of at the will of its leader.
Nothing more, nothing less. Poor Pakistan. Poor People's Party supporters. Both deserve better than this disgusting, medieval charade.
اس کا ترجمہ یہ ہے:
(بی بی کی وصیت کے اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے طارق علی نے لکھا) ”وصیت کے مطابق بی بی کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کو ایک تین رکنی کمیٹی چلائے گی جس میں شہید بی بی کے شوہر آصف زرداری اور دو ایسے سیاستدان جو بقول طارق علی کسی اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔ پارٹی کو اس وقت تک چلائیں گے جب تک بے نظیر کا بیٹا بلاول پختہ عمر کا نہیں ہوجاتا۔ایسا ہونے کے بعد وہ پارٹی کا تاحیات چیئرپرسن ہوگا اور بدیہی طور پر وہ یہی منصب اپنے بچوں کو آگے منتقل کر دے گا یہ انتظام اب سرکاری طور پر کر دیا گیا ہے لیکن اس کے سرکاری طور پر اعلان کر دیئے جانے کے باوجود اس کے مضحکہ خیز ہونے میں کوئی کلام نہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو ایک خاندانی ورثے کے طورپر استعمال کیاجا رہا ہے یا ایسی جائیداد کے طورپر جس کے ساتھ اس کے لیڈر کی خواہش کے مطابق کوئی بھی سلوک کیا جا سکتا ہے۔ یہ مجوزہ انتظام نہ اس سے زیادہ ہے نہ اس سے کم۔ بدقسمت پاکستان، بدقسمت پاکستان پیپلزپارٹی اور اس کے حامی، حالانکہ دونوں اس بیزار کن فرسودہ تماشے سے بہتر سلوک کے مستحق ہیں“(تراشے کے ایک آدھ جملے کا ترجمہ راقم نے دانستہ نہیں کیا) ۔
واضح رہے کہ بے نظیر بھٹو اپنی جلا وطنی کے زمانے میں اور اس کے دوران یا اس سے پہلے لندن میں اپنے قیام کے دوران اپنی سیاسی حکمت عملیوں کے بارے میں طارق علی سے اکثر مشورہ کیا کرتی تھیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ ان کے کن مشوروں کو پوری طرح یا جزوی طور پر قبول کرتی تھیں یا بالکل ہی قبول نہ کرتی تھیں۔ طارق علی کے اس تجزیئے کو پیش نظر رکھئے اور اس کی روشنی میں ان حالات کا جائزہ لیجئے جو اس وقت داخلی طور پر پیپلز پارٹی کو درپیش ہیں۔ پارٹی کی داخلی صورتحال پر معاصر ”دی نیوز“ کا یہ تبصرہ صورتحال کو مزید واضح کرتا ہے جس کے مطابق پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو بہت بڑی اکھاڑ پچھاڑ کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ کیونکہ زرداری ہاؤس ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کو ایک انوکھے انداز میں تشکیل دے رہا ہے جس میں پرانے لوگوں کی جگہ نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں سے پس پردہ تبادلہ خیال یہ ظاہر کرتا ہے کہ پارٹی کے کارکنوں اور سینئر رہنماؤں دونوں میں شریک چیئرپرسن کی جانب سے پارٹی اور حکومتی معاملات سے جس طرح نمٹا جا رہا ہے اس پر شدید عدم اطمینان کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی مقتول چیئرپرسن بینظیر بھٹو کے زیادہ تر قابل بھروسہ ساتھی اب پارٹی کی موجودہ اعلیٰ قیادت کیلئے متعلق نہیں رہے ہیں، پارٹی کا نیا سیکرٹریٹ بھی ایک نیا منظر پیش کرتا ہے اور بینظیر کی جانب سے مقرر کردہ لوگ اب گھر بیٹھے ہیں اور ان کی جگہ نئے چہروں نے لے لی ہے۔ تاہم جیالوں کو اس وقت شدید جھٹکا لگا تھا جب حال ہی میں زرداری ہاؤس نے مقامی قیادت اور راولپنڈی اور اسلام آباد کے ناظمین سے کہا کہ وہ لیاقت باغ میں بینظیر بھٹو کی سال گرہ کی تقریب میں شرکت نہ کریں تاہم تقریب اس کے باوجود بھی بہت کامیاب رہی۔ زرداری حامی مقامی گروپ بشمول قاضی سلطان محمود اور فوزیہ حبیب اور ان کی طرح کے لوگوں نے تقریب میں شرکت نہیں کی اور پیپلز پارٹی میں اس تقسیم کی تصدیق کر دی جس کا حال ہی میں مخدوم امین فہیم نے اشارہ دیا تھا، زرداری کا مخالف مقامی گروپ دعویٰ کرتا ہے کہ زرداری ہاؤس کی ہدایت پر مری روڈ سے بینظیر بھٹو کی سالگرہ کے بینر بھی ہٹا دیے گئے تھے۔ پیپلز پارٹی کے اعلیٰ رہنماؤں میں سے مخدوم امین فہیم، اعتزاز احسن، صفدر عباسی، ناہید خان نے لیاقت باغ میں سالگرہ کی تقریب میں شرکت کی اور اس طرح سے تقسیم عوام میں بھی نمایاں ہوگئی۔ تقریباً یہ تمام رہنما بینظیر بھٹو کے بہت قریب رہے ہیں اور ان کی طرح ہی یوسف تالپور، رضا ربانی اور انور بیگ بھی بینظیر کے قریب تھے لیکن زرداری ہاؤس کی جانب سے پیپلز پارٹی کیلئے قربانیوں اور ان کی سینارٹی کے باوجود ان سے بے رخی برتی جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے ایک سینئر رہنما نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آصف زرداری نے پارٹی کے مرکزی سیکریٹریٹ کے آزمودہ دو ایگزیکٹو کو برطرف کر دیا جبکہ سیکرٹریٹ کے انچارج کو بھی تبدیل کرنے کا امکان ہے۔ آفس سیکرٹری ابن رضوی کو بینظیر نے 1993ء میں تعینات کیا تھا اور جاوید میر کو 1996ء میں پی آر او تعینات کیا گیا تھا، ان دونوں کو خاموشی سے ہٹا دیا گیا ہے اور ان کی جگہ قصور سے چوہدری منظور اور ایک مقامی خالد کو لایا گیا ہے۔ ریٹائرڈ بیورکریٹ کامران ظفر سیکریٹریٹ کے انچارج ہیں، جنہیں 6 سال قبل تعینات کیا گیا تھا۔ ذرائع نے کہا کہ توقع ہے کہ ظفر کو زرداری کے ایک اور وفادار سے تبدیل کر دیا جائے گا۔ زرداری مبینہ طور پر سیکریٹریٹ کے موجودہ سربراہ کو ایک نئی ذمہ داری دینے کیلئے پر عزم ہیں، پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کیلئے پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکریٹریٹ اور زرداری ہاؤس میں زیادہ تر اجنبی افراد بیٹھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ سال اٹک میں ہلاک ہونے والے پیپلز پارٹی کے 13 کارکنوں میں سے ایک کے رشتے داروں کو مبینہ طور پر نئی پیپلز پارٹی نے اس وقت نظراندز کر دیا جب انہوں نے مدد کیلئے اسلام آباد کا دورہ کیا۔ اٹک سے تعلق رکھنے والے مایوس شخص کو بتایا گیا کہ ان کا بھائی کسی سیاسی وجہ سے نہیں بلکہ خاندانی جھگڑے کی وجہ سے ہلاک ہوا۔ پیپلز پارٹی کے اندر مایوسی کا پہلے ہی اظہار ہوگیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے ایک مایوس ایم این اے نے سیاست چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ پارلیمانی پارٹی کے حالیہ اجلاس میں پارٹی کے اچھے خاصے ارکان نے پارٹی کے وزراء اور رہنماؤں کی ارکان پارلیمنٹ کیلئے عدم دستیابی پر سخت تنقید کی اور کہا کہ پارٹی کے عام کارکنوں اور حامیوں کا کیا حال ہوتا ہوگا۔ اجلاس میں وزیر اعظم بھی موجود تھے۔ ایک طرف کر دیئے گئے پارٹی رہنماؤں کی اس وقت مستقبل کے حوالے سے کوئی حکمت عملی نہیں ہے اور ان میں سے کوئی یہ بھی نہیں چاہتا کہ پارٹی تقسیم ہو۔ پیپلز پارٹی کے ایک سینئر لیڈر نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ بھٹوز کی پارٹی کسی مصالحت کے بغیر متحد رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ پارٹی کے دیگر مایوس سینئر رہنماؤں کے ہمراہ زرداری سے ملاقات کریں گے تا کہ پارٹی کو کسی سنگین تباہی سے بچایا جا سکے۔ پیپلز پارٹی کے آخری سی ای سی کے اجلاس میں بہت کم رہنما تھے جنہوں نے زرداری کی موجودگی میں زرداری ہاؤس کی پالیسیوں پر تنقید کی۔ نوٹ کرنے کی دلچسپ بات یہ ہے کہ سینیٹ میں پارٹی لیڈر رضا ربانی ججوں کے مسئلے پر زرداری ہاؤس کی پالیسی کی عوامی حمایت نہیں کرتے۔ ایک سینئر لیڈر نے کہا کہ معاملات زیادہ عرصے اس طرح نہیں چل سکتے، پارٹی میں سنگین ہلچل کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ جن کا پاکستان میں کچھ داؤ پر نہیں لگا ہوا ، ان کو پارٹی کا گلا گھونٹتے ہوئے دیکھنا ہماری مجرمانہ غفلت ہوگی۔
 
امّاں پارس جان,,,,قلم کمان…حامد میر

اماں پارس جان لاہور کی معروف سیاسی کارکن ہے 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق نے ایک منتخب جمہوری حکومت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کرلیا۔ جولائی میں بھٹو صاحب کو رہا کیا گیا تو لاہور میں ان کا زبردست استقبال ہوا۔ استقبال کرنے والوں میں پارس جان بھی شامل تھی جس نے گود میں ایک بچہ اٹھا رکھا تھا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے بھٹو صاحب نے اس عورت کو روتے دیکھا تو اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ میں نے ایسا کوئی جرم نہیں کیا کہ تمہارا سر شرم سے جھک جائے اور میں کبھی تمہاری نظریں جھکنے نہیں دوں گا اس واقعے کے چند دنوں کے بعد بھٹو صاحب کو ایک مقدمہ قتل میں گرفتار کر لیا گیا اس گرفتاری کے خلاف مظاہرے کرنے والوں میں پارس جان سب سے آگے آگے ہوتی۔ پولیس نے اس کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارنے شروع کئے تو ایک دن اس کا خاوند غصے میں آگیا۔ خاوند نے بیوی سے کہا کہ پیپلزپارٹی چھوڑ دو۔ پارس جان نے انکار کردیا جس پر خاوند نے پارس جان سے اس کا دو سالہ بیٹا عابد چھین لیا اور اسے طلاق دے دی۔
امّاں پارس جان اس طلاق کا ذمہ دار ہمیشہ ضیاء الحق کو سمجھتی تھی لہٰذا جنرل ضیاء کے دور میں وہ کبھی کوٹ لکھپت جیل اور کبھی کیمپ جیل لاہور میں بند نظر آتی۔ 1986 میں محترمہ بے نظیر بھٹو لندن سے واپس آئیں تو انہیں پتہ چلا کہ پارس جان کو پیپلزپارٹی کی خاطر خاوند اور اولاد سے ہاتھ دھونے پڑے۔ 1988 میں بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں۔ ایک دن انہوں نے امّاں پارس جان سے پوچھا کہ کیا کبھی تمہارا بیٹا تمہیں ملتا ہے؟ پارس جان نے اپنی لیڈر کوبتایا کہ اس کابیٹا عابد اسے باپ سے چھپ چھپ کر ملتا ہے۔ پھر ایک دن پارس جان نے اپنے بیٹے کو وزیراعظم سے ملوایا تو وزیراعظم نے اس نوجوان کو الائیڈ بینک میں ایک چھوٹی سی نوکری دلوا دی۔
کئی سال کے بعد محترمہ بے نظیربھٹو بیرون ملک جلاوطنی کی زندگی گزار رہی تھیں ایک دن عابد نے الائیڈ بینک کے ملازمین کو اکٹھا کیا اور اپنی محسن محترمہ بے نظیر بھٹو کی سالگرہ پر ایک کیک کاٹا سالگرہ کی یہ تقریب عابد کے افسران کو اچھی نہیں لگی اور انہوں نے اسے نوکری سے فارغ کر دیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی جلاوطنی ختم کر کے 2007 میں واپس پاکستان آئیں تو پارس جان سے ان کی دوبارہ ملاقات ہوئی۔ پارس جان نے بتایا کہ اس کے بیٹے کو نرکری سے نکالا جا چکا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے وعدہ کیا کہ پارٹی کی حکومت آنے پر عابد کو دوبارہ نوکری ملے گی۔ 27 دسمبر 2007 کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی زندگی کا چراغ بجھا دیا گیا لیکن ان کی قربانی کے باعث پیپلزپارٹی مارچ 2008 میں ایک دفعہ پھر اقتدار میں آگئی۔ امّاں پارس جان کہتی ہے کہ 1977 سے 2007 تک تیس سالوں میں اسے کبھی تھکاوٹ محسوس نہیں ہوئی وہ سب کچھ کھو کربھی خوش رہتی تھی محترمہ بے نظیر بھٹو کو کھونے کے بعد وہ بیمار رہنے لگی۔ اس بیماری میں اس نے اپنے بیٹے کو حوصلہ دیا کہ فکر نہ کرو اب تمہیں نوکری ضرور ملے گی بوڑھی امّاں پارس جان نے اپنے بیٹے کا معاملہ پارٹی کے ہر اہم لیڈر تک پہنچایا یہاں تک کہ اس کی درخواست آصف علی زرداری تک بھی پہنچ گئی۔ آصف علی زرداری نے یہ درخواست فوزیہ حبیب کے حوالے کر دی چند ہفتے پہلے تک عزیز رشتہ دار امّاں پارس جان سے پوچھتے تھے کہ تمہارے بیٹے کونوکری کیوں نہیں ملی؟ وہ جواب میں کہتی کہ ابھی تو ہماری حکومت کو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں، ہمارے وزیراعظم نے پہلے ایک سو دن کا پروگرام دے دیا ہے اور سو دن میں میرے بیٹے کو نوکری مل جائے گی۔
چند دن پہلے آصف علی زرداری لاہور گئے تو امّاں پارس جان نے گورنر ہاؤس میں ان تک پہنچنے کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئی۔ اب لوگ اسے طعنے مارنے لگے ہیں ایک پرانے مخالف نے اسے کہا کہ تمہاری حکومت کے پہلے سو دن میں آصف علی زرداری کے تمام مقدمے ختم ہوگئے، ان کے بینک اکاؤنٹس اورضبط شدہ جائیدادیں بھی بحال ہو گئیں لیکن تمہارے بیٹے کو نوکری نہیں ملی۔ امّاں پارس جان مخالفین کے طعنوں کا منہ توڑ جواب تو دے دیتی ہے لیکن اندر سے ٹوٹ رہی ہے۔ ایک دن دکھ اور بیماری نے بہت تنگ کیا تو پیپلزپارٹی کی رکن پنجاب اسمبلی ساجدہ میر کے پاس جا پہنچی اور اسے اپنا مسئلہ بتایا۔ ساجدہ میر نے بھی ادھر ادھر فون کئے اور بھاگ دوڑ کی۔ ساجدہ نے امّاں پارس جان کے ساتھ کئی دفعہ قید کاٹی ہے دونوں ایک دوسرے کے دکھ سکھ کی ساتھی رہیں جب ساجدہ سے کچھ نہ ہو سکا تو بے بسی کے عالم میں وہ امّاں پارس جان کے سامنے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ اس نے اپنی جیل کی بزرگ ساتھی سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ امّاں مجھے معاف کر دے، میں تیرے لئے کچھ نہیں کر سکتی، میں کس کے پاس جاؤں کیونکہ پارٹی کے وزیر تو مجھے پہچانتے بھی نہیں، مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں بھی اپنی شہید لیڈر کی طرح منوں مٹی کے نیچے دفن ہو چکی ہوں۔ یہ سن کر امّاں پارس جان نے ساجدہ میر کی ڈھارس بندھائی اور کہا کہ فکر نہ کرو، ہماری شہید لیڈر کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔ بیٹے کو نوکری نہیں ملتی تو نہ ملے لیکن ہمیں حوصلہ نہیں ہارنا اور اپنی جدوجہد جاری رکھنی ہے۔ ساجدہ میر نظریں جھکائے آنسو بہا رہی تھی۔ امّاں پارس جان نے دونوں ہاتھوں سے اس کا جھکا ہوا ماتھا اٹھایا، پیشانی پر بوسہ دیا اور کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ہم غریبوں کو ہمیشہ سر اٹھا کر سچ بولنے کا حوصلہ دیا تھا یہ سر جھکنا نہیں چاہئے اور زبان خاموش نہیں ہونی چاہئے۔ یہ کہہ کر امّاں پارس جان واپس چلی گئی لیکن ساجدہ میر کافی دیر تک خاموش رہی۔ حکومت کے سو دن پورے ہو چکے ہیں لیکن امّاں پارس جان کے بیٹے کو نوکری نہیں ملی یہ مایوسی ایک کارکن کا نہیں بلکہ ہزاروں کارکنوں اور لاکھوں پاکستانیوں کا المیہ ہے۔ اس المیے پر ساجدہ میر کو کب اور کہاں زبان کھولنی ہے اسے سمجھ نہیں آرہی۔
 

خرم

محفلین
پیپلز پارٹی کے نوحے تو لکھے جا رہے ہیں پاکستان کا نوحہ کون لکھے گا؟ عابد کی نوکری سیاسی وابستگی کی بنا پر چھینی گئی کیا اسے نوکری دلوانے سے بڑا مقصد یہ قانون بنانا نہیں کہ کسی کی بھی نوکری اس کی سیاسی وابستگی کی بنا پر نہ تو چھینی جاسکتی ہے اور نہ ہی کسی کو کسی بھی امتیازی حیثیت کی بنا پر کسی دوسرے پر ترجیح دی جا سکتی ہے؟ لیکن خیر ان باتوں پر کون غور کرے گا اور کیوں کرے گا؟ ہمارا مسئلہ تو عابد کی نوکری ہے نا کہ کالم کا پیٹ اس سے ہی بھرتا ہے۔ جذباتیت نجانے کب حقیقت کا روپ سمجھے گی؟ نجانے کب ہم پیٹ درد کو گھٹنوں کا درد سمجھنے کی روش چھوڑیں گے؟ نجانے کب ہم شخصیات سے اوپر اُٹھ کر نظریات کی پیروی شروع کریں گے؟ نجانے کب۔۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
ایسے کئی عابد سڑکوں پر رُل رہے ہیں۔ یہ سارے وڈیرے ایسے کئی عابدوں کو ٹشو پیپر کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

اور خرم بھائی کی بات بالکل صحیح ہے کہ عابد کی نوکری اور کالم کا پیٹ، آخر کو کالم نگار نے اپنے پیٹ کے لیے بھی تو کچھ کرنا ہے ناں۔

خرم بھائی یہ قانون وغیرہ صرف غریبوں کے لیے ہی ہوتے ہیں۔ جہاں غریب کو مزید غریب کرنا ہے، اس کا جائز کام بھی نہیں ہونے دینا، وہاں یہ سب قوانین پہلے سے ہی موجود ہیں۔
 
Top