پیکجز

Shaidu

محفلین
بچے اور بچیاں جب جوان ہونے لگتے ہیں تو ان کا ہارمونل سسٹم جسم کو ایک عجیب سی رونق بخشتا ہے کسی کے لیے یہ دن ایڈونچر کا با عث بنتے ہیں تو کسی کے لیے بے وجہ کی شرمندگی لاتے ہیں ان دنوں باتوں اور دل کی تپش حیرت ناک حد تک بڑھ جاتی ہے کوئی رہنما اور مددگار نہ ملے، کوئی روکنے اور ٹوکنے والا نہ ہو تو ذہن اور بھی بے سمت اور بے کنار ہو جاتا ہے زندگی کے راستوں پر دھند چھانے اور بھٹکانے لگتی ہے تب شکلیں اور ارادے بدل جاتے ہیں

ہمارا مین اسٹریم میڈیا ہو یا سوشل میڈیا ، نظام جدیدہ ہو یا روشن خیالی کا فلسفہ سب نے میری نوجوان نسل کو اندھیر رستوں پر دوڑا دیا ہےان سب لوازم کے ساتھ ساتھ ہمارے موبائل نیٹ ورک نے، جو ایک سہولت تھی آج ایک کمزوری اور بیماری کا روپ دھار لیا ہےکسی نے یوں رہنمائی کی کہ موبائل بہت اچھا ہے اور مفید بھی مگر ٹھنڈی آگ ہے جو من میں لگا دیتا ہے اور کسی کام کا نہیں چھوڑتا ، یہ جھوٹی سچی آوازوں کا شہر ہے جہاں اکثر گلیاں بند اور راستے نہیں ملتے بلاشبہ موبائل نے میری قوتوں کو ہائی جیک کر کے مجھے آگ کے الاؤ میں ٹھونس دیا ہےلیکن سوچتا ہوں میں خود ہی ا


حمق ہوں اور جہاں احمق ہوں گے وہاں احمق بنانے والے کیوں نہیں ہوں گے اس بھٹی کا کیا قصور ؟ اس میں جو بھی گرے گا جل کر راکھ بنے گا اب کوئی بچنا چاہتا ہو یا جلنا چاہتا ہو اس پر منحصر ہے

رات رات بھر باتیں کرتے رہنا دلچسپ اورپر لطف ہوتا ہےاس آواز سے کہ جس کے سحر نے الفی لگا کر جکڑ لیا ہوتب لمحوں اور وقت میں کوئی فرق نہیں رہتا سچ مانئے یہ لڑکی لوگ بہت عجیب قسم کی شے ہے دیکھنے میں اتنی معصوم لیکن برتنے میں ایک زہر جو خیالی زندگی میں شائد پر سکون لگتا ہو لیکن عملی زندگی میں خوشی اور رونق کی ساری سرخی چوس لیتا ہے،یہ وفائیں جوانی کی ساری تازگی اور ساری شادابی چھین لیتی ہیں، نادانی کا سورج یوں چمکتا ہے کہ میری ماں سوتے ہوئے میرے لیے ڈھیر ساری دعائیں مانگتی ہے اور میں اپنی جھوٹی امید اور وفاء کا چراغ جلائے بیٹھا ہوتا ہے شائد گھر کے افراد کی اہمیت بھی اسے دے بیٹھتا ہوں جسے میرے دل کے اینٹینے نے چند لمحوں میں بغیر سمجھے سوچے کیچ کر لیا تھا، کالج اور یونیورسٹی میں تعلیمی سرگرمیاں ماند کیوں نہ پڑ جائیں جب کورس کی کتاب کے بجائے انسان ساری رات کسی بے آشنا کو پڑھتا رہ جائے تب دن میں وائٹ بورڈ پر بھی اسی کی تصویریں جھلک رہی ہوتی ہیں جیسے مجھے کہ رہی ہوں کہ سوجا پیارےکل کی رات نے پھر آنا ہے

نہیں گڑیا ! اب وہ رات نہ آئے جس کا گھپ اندھیرا میری قسمت کو سیاہ کر جاتا ہے میں بہت خوش ہوں کہ پی ٹی اے خواب خرگوش سے جاگ گیا ہے اب اپنے روشن مستقبل کے لیے ایک خوش حال پاکستان کی آرزو لیے میں رات میں سویا کروں گا – پی ٹی اے نے میری بے روک ٹوک زندگی کے آگے اشارے لگا دیے ہیں کہ میں جان سکوں کہ تیز چلنے سے زندگی لیٹ نہیں ہو جاتی بلکہ قدم اکھڑ جاتے ہیں میں ممنون ہوں ان ذمہ داران کا کہ جنہوں نے مجھ جیسے ہزاروں نوجوانوں کو تباہی سے بچانے کی ایک تدبیر سوچی ہے جنہیں ” دن رات لمبی بات ” اور ” سب کہہ دو ” کے لیے مفت یا انتہائی سستے پیکج مل رہے تھے بے راہ روی اور اخلاقی زبوں حالی کے خلاف اہم قدم اٹھایا ہے نہیں گڑیا! اب وہ رات نہیں آئے گی گڈ بائے میری جانو !

معلوم ہوا ہے کہ ٹیلی نار ، موبی لنک ، یو فون ، وارد اور ژونگ اپنی تجوری کی بھیک مانگنے کے لیے عدالت کا رخ کر رہی ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ ہر گھر میں بیٹا یا بیٹی یا بہو موجود ہوتی ہے
 

ساجد

محفلین
یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ مسلم ممالک کی حکومتیں منافقت کے کس مقام تک پہنچیں گی۔ آپ میں سے بہت سے لوگوں نے فیملی فون (جوال العائلی) کے بارے میں سن رکھا ہو گا اگر نہیں تو سنئے کہ اس فون میں سم الگ سے نہیں پڑتی بلکہ Built-in ہوتی ہے جسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ صرف انہی نمبروں سے کال وصول اور ارسال کر سکے گا جو اس میں فیڈ کروا دئے جائیں اور اس پر ایس ایم ایس سروس آپشنل ہوتی ہے یعنی اگر چاہیں تو بند کروا سکتے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ اگر نوجوان نسل اور سٹوڈنٹس کو بگڑنے سے بچانے میں نیت صاف ہو تو اسے رواج دیا جانا چاہئیے۔ لیکن کیا کریں ”جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے“ ۔ ہماری حکومتوں کی بے حسی کے ان لمیٹڈ پیکج میں یہ سہولت دستیاب نہیں ہے۔
 

ساجد

محفلین
اگر پری پیڈ سروس ختم کردی جائے تو یہ بھی بہت سودمند ثابت ہوگی۔
انیس ، پری پیڈ سروس ہو یا پوسٹ پیڈ اگر اس کا اجراء دستاویزی کر دیا جائے تو مشکل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اگرچہ موبائل کی پری پیڈ سروس زیادہ سستی پڑتی ہے لیکن پاکستان میں یہ ٹیکس چوری کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔ اس لئے سر دست میں قومی مفاد میں پوسٹ پیڈ کے حق میں ہوں لیکن قوانین بہتر بنا کر پری پیڈ سروس چلانا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ کیونکہ جن لوگو کا ماہانہ فون کا خرچہ 50 روپے بھی ہو وہ اس میں ایڈجسٹ کر جاتے ہیں جبکہ پوسٹ پیڈ چا ر یا پانچ سو روپے ماہانہ سے شروع ہوتی ہے۔
جس فیملی فون کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے اس میں والدین کے لئے اطمینان کی بات ہے کہ ان کے بچے صرف مقرر کردہ نمبروں پر ہی رابطہ کر سکیں گے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
انیس ، پری پیڈ سروس ہو یا پوسٹ پیڈ اگر اس کا اجراء دستاویزی کر دیا جائے تو مشکل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اگرچہ موبائل کی پری پیڈ سروس زیادہ سستی پڑتی ہے لیکن پاکستان میں یہ ٹیکس چوری کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔ اس لئے سر دست میں قومی مفاد میں پوسٹ پیڈ کے حق میں ہوں لیکن قوانین بہتر بنا کر پری پیڈ سروس چلانا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ کیونکہ جن لوگو کا ماہانہ فون کا خرچہ 50 روپے بھی ہو وہ اس میں ایڈجسٹ کر جاتے ہیں جبکہ پوسٹ پیڈ چا ر یا پانچ سو روپے ماہانہ سے شروع ہوتی ہے۔
جس فیملی فون کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے اس میں والدین کے لئے اطمینان کی بات ہے کہ ان کے بچے صرف مقرر کردہ نمبروں پر ہی رابطہ کر سکیں گے۔
یہ بات تو درست ہے آپ کی۔
میرا ماہانہ خرچہ 80 سے 100 روپے ہے۔
میں تو پوسٹ پیڈ سے لُٹ جاؤں گا۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اچھا لکھا ہے۔
مجھے تو سچ میں بہت خوشی ہو رہی ہے، جس دن سے پی ٹی اے نے یہ فیصلہ کیا ہے۔
تُو شاہیں ہے، پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں

مگر افسوس
تیری پرواز نائٹ پیکجز تک ہی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہاں سعودی عرب میں تین مختلف کمپناں موبائل فون پر اپنی خدمات دے رہی ہیں۔

سعودی ٹیلکوم کمپنی
موبائلی (یہ دبئی کی کمپنی ہے)
زین (یہ کویت کی کمپنی ہے)

ان تینوں کمپنیوں کی پری پیڈ سم باآسانی بازار میں مل جاتی تھیں۔ ابھی چند ہفتے پہلے حکومت سعودی عرب نے پری پیڈ سم میں پیسے ڈالنے کا نیا طریقہ متعارف کروایا ہے۔ کہ ری چارج کرتے وقت اپنا شناختی نمبر بھی اس میں فیڈ کرو۔ سعودیوں کے لیے ان کا شناختی نمبر اور غیر سعودیوں کے لیے اقامہ نمبر۔

اس طریقہ کار کے متعارف کروانے سے یکدم وہ تمام کی تمام سم بیکار ہو گئی ہیں جو بغیر شناخت کے نکلوائی گئی تھیں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اچھا لکھا ہے۔
مجھے تو سچ میں بہت خوشی ہو رہی ہے، جس دن سے پی ٹی اے نے یہ فیصلہ کیا ہے۔
تُو شاہیں ہے، پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں

مگر افسوس
تیری پرواز نائٹ پیکجز تک ہی ہے۔

قیصرانی بھائی، Shaidu بھائی
میری پوسٹ میں دو باتیں ہیں، آپ دونوں کس بات پہ ہنسے ہیں؟
 
Top