انیس الرحمن
محفلین
پیگی پلہام کا آدم خور
کینتھ اینڈرسن
Book: The Black Panther of Sivani Palli
یہ ایک آدم خور شیر کی تباہ کاریوں اور اس کے زوال کی مکمل کہانی نہیں ہے کیونکہ وہ شیر یہ کہانی لکھنے کے وقت تک زندہ ہے۔ سرکاری اطلاع کے مطابق اس نے چودہ آدمی ہلاک کیئے ہیں اگرچہ غیرسرکاری اطلاعات کے مطابق اس کی ہلاکت خیزیوں کی لپیٹ میں کوئی سینتیس کے قریب مرد، عورتیں اور بچے آئے ہیں۔ ان میں سے ایک درجن کے قریب اس نے سارے کے سارے یا کسی حد تک کھالیئے تھے اور باقیوں کو محض لہولہان کیا تھا۔ سرکاری ریکارڈ فقط ہلاک کیئے گئے افراد پر مشتمل ہے۔ اسی لیئے ان دونوں بیانوں میں ایک بھی اختلاف نہیں۔
اس کہانی کا دل چسپ پہلو یہ ہے کہ میرے یقین کے مطابق یہ وہی شیر ہے جس کا ذکر میں پہلے ایک کتاب میں کرچکا ہوں۔ اس کہانی میں میں نے بتایا تھا کہ شمالی کمبا توڑ میں پہاڑیوں کے دامن میں چھوٹی چھوٹی جھاڑیوں کے جنگل میں ایک شیر کہیں سے آگیا تھا جو بعد میں آدم خور بن گیا تھا۔
اس جنگل کے سب سے قریبی گاؤں کا نام راج نگر تھا۔ چونکہ شیر نے اپنی ہلاکت خیزیوں کی ابتداء ان گڈریوں سے کی تھی جو اس قریبی گاؤں سے جنگل میں گائے بھینس چرانے آیا کرتے تھے۔ اس لیئے وہ شیر راج نگر کے شیر کے نام سے مشہور ہوگیا۔ علاوہ بریں وہ اپنے حملہ کرنے کے خاص اسلوب سے شہرت حاصل کر چکا تھا۔ اس کے حملہ آور ہونے کے انداز میں یہ خاصیت تھی کہ وہ ایک دم جھاڑیوں کی اوٹ سے نکلتا اور گڈریئے کو اپنے پنجوں سے بری طرح نوچ ڈالتا اور پھر اس کے مویشیوں سے اپنا پسندیدہ مال اٹھا کر چل بنتا۔ اس وقت تک ایسی کوئی معتبر شہادت نہ ملی تھی کہ اس نے جس آدمی پر حملہ کیا ہو اسے دانتوں سے کاٹا بھی ہو۔ ایک دو آدمی گم ہوگئے تھے اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ شیر نے ان کو کھا لیا ہے۔ لیکن یہ فقط ایک مفروضہ تھا اور اس سلسلے میں کوئی ثبوت مہیا نہ ہوسکا تھا۔ شیر کے بارے میں فقط یہ معلوم تھا کہ وہ اپنے شکار کو دانتوں سے نہیں بلکہ پنجوں سے زخمی کرتا ہے۔
اس کی اس خاص عادت کی وجہ سے گردونواح میں یہ مشہور ہوگیا کہ اس کے جبڑے یا چہرے پر ایسا کوئی زخم ہے جس کے باعث وہ دانتوں سے کاٹنے سے معذور ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی مسلّمہ تھی کہ شیر گڈریئے کو زخمی کرنے کے بعد ہلاک کیئے ہوئے مویشی کو پیٹ بھر کے کھاتا تھا۔ جس سے یہ امر واضح تھا کہ شیر بخوبی کاٹ اور کھا سکتا تھا۔ یہ ایک بڑا غیر معمولی معاملہ تھا۔ جس کی کئی وضاحتیں دی گئیں مگر ان میں سے کوئی بھی اطمینان بخش نہ تھی۔
میں اپنی پہلی کہانی میں بیان کرچکا ہوں کہ کس طرح میں نے اس شیر کو شکار کرنے کی کوشش کی اور ناکام رہا۔ وہ بے حد چالاک درندہ تھا۔ انجام کار میں اس سے شکست کھا کر بنگلور واپس چلا گیا۔ لیکن مجھے یقین تھا کہ بہت جلد مجھے اس کا سامنا کرنے کا موقع ملے گا اور میری کامیابی کے امکان زیادہ ہوں گے۔
اس وقت سے اب تک میرے بعض دوستوں اور بہی خواہوں نے مجھ سے پوچھا ہے کہ راج نگر کے آدم خور کی کہانی میں کچھ اضافہ ہوا ہے کہ نہیں۔ میرے ایک پرانے شناسا جاکرتی نے لاس اینجلس کیلی فورنیا سے مجھے بذریعہ تار کہا ہے کہ وہ اس خاص قسم کےشیر کے متعلق مزید کچھ سننے کے لیئے بےتاب ہیں۔
مجھے افسوس ہے کہ میں ان لوگوں کے تجسس کو مطمئن نہ کرسکا۔ کیونکہ میرے وہاں سے چلے آنے کے کچھ عرصے بعد راج نگر کے قاتل نے لوگوں کو زخمی کرنا بند کردیا اور بعد میں اس کے متعلق کوئی خبر نہ سنی گئی۔ سب کو یقین تھا کہ اس کی کایا پلٹ گئی ہے اور نئے سال کے ساتھ ہی اس نے اپنی زندگی کا نیا ورق پلٹ لیا ہوگا یا پھر ممکن ہے کہ وہ کسی دور کے جنگل چلا گیا ہو اور وہاں فطری موت مر گیا ہو۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ راج نگر کے گڈریوں نے اسی شیر کی آمد سے بے پروا ہوکر پہلے کی طرح پھر سے جنگل میں اپنے مویشی چرانے شروع کردیئے۔ اب کوئی شیر انہیں کچھ نہ کہتا تھا۔
اور پھر کوئی نو ماہ بعد، ایک شام کو سورج راج نگر سے کوئی پچاس میل دور پہاڑیوں کے سلسلے کے عقب میں روپوش ہورہا تھا، پرندے اپنے گھونسلوں کو واپس جارہے تھے۔ سورج کی ترچھی کرنیں پیگی پلہام کے چھوٹے سے گاؤں کی مشرقی جھونپڑیوں پر سونا بکھیر رہی تھیں۔ یہ گاؤں جنگل کے وسط میں ایک صاف جگہ پر آباد تھا اور اس کے مغرب میں پہاڑیوں کا سلسلہ تھا اور مشرق میں ڈمبم سے کولے گھاٹ جانے والی سڑک تھی۔ جو اس گاؤں سے زیادہ سے زیادہ دو میل ہوگی۔ ہاں تو شام کا وقت تھا، گڈریئے اپنے مویشی دن بھر جنگل میں چرانے کے بعد گھر واپس لا رہے تھے۔ پیگی پلہام سے چند فرلانگ کے فاصلے پر ایک کچے راستے پر جو گاؤں کی سمت آتا تھا۔ دو گڈریئے جن میں سے ایک ادھیڑ اور دوسرا لڑکا تھا، اپنے مویشیوں کے پیچھے پیچھے آرہے تھے۔
راستے میں چھوٹے چھوٹے برساتی نالے تھے۔ ان گڈریوں کے مویشی ایک نالے کو عبور کر رہے تھے۔ ادھیڑ گڈریا بھی نصف نالا عبور کرچکا تھا لیکن لڑکا ابھی پچھلے کنارے پر تھا۔ نالے کے کنارے پر بانس کے درخت کثرت سے اگے ہوئے تھے۔ لڑکا اپنے خیالات میں کھویا ہوا ان درختوں میں سے گزر رہا تھا۔
اتنے میں ادھیڑ گڈریئے نے اپنے عقب میں ایک کھوکلی آواز سنی۔ اس نے مڑ کر دیکھا۔ لیکن اسے کچھ نظر نہ آیا۔ اس کے عقب والا راستہ بانس کے گھنے جھنڈ میں سے گزرتا تھا۔ اسے اس میں کوئی چیز دکھائی نہ دی۔ وہ پھر مویشیوں کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ اس نے سوچا کہ لڑکا کھیل میں مصروف ہے کہیں پیچھے رہ گیا ہوگا۔
آخر وہ پیگی پلہام کے قریب پہنچ گیا۔ ادھیڑ گڈریئے نے ایک دفعہ پھر مڑ کر دیکھا۔ لڑکا اب بھی نہ دکھائی دیا۔ اس نے لڑکے کا نام لے کر آواز دی۔ لیکن کوئی جواب نہ آیا۔ تھوڑی دیر بعد اس شخص نے پھر آواز دی مگر اس کی آواز خاموشی میں ڈوب گئی۔ اس نے سوچا ممکن ہے لڑکا دوسرے راستے سے گاؤں چلا گیا ہو۔ لیکن گاؤں پہنچ کر بھی اسے لڑکا دکھائی نہ دیا۔
ادھیڑ گڈریئے نے اس بات پر کوئی زیادہ توجہ نہ دی کیونکہ لڑکے کی تاخیر کی سینکڑوں وجوہ ہوسکتی تھیں۔ لیکن جب ایک گھنٹے بعد بھی لڑکا گاؤں واپس نہ آیا تو ادھیڑ گڈریئے نے سوچا کہ آخر لڑکا کس جگہ اس کی نظروں سے اوجھل ہوا تھا۔ تب اسے یاد آگیا کہ نالے میں سے گزرنے کے بعد لڑکا اسے دکھائی نہ دیا تھا۔ اسے یہ بھی یاد آگیا کہ اس نے وہاں ہلکی سی غراہٹ بھی سنی تھی۔ اس کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ یقینا لڑکے کو کچھ ہوگیا ہے۔ سانپ، کسی سانپ نے اسے کاٹ لیا تھا۔ لیکن اس کے ذہن میں کسی آدم خور شیر یا چیتے کا خیال بالکل نہ آیا کیونکہ پیگی پلہام کی پر امن بستی میں اس قسم کی مصیبت کبھی نازل نہ ہوئی تھی۔
لہذا وہ جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھا اور بانسوں کے جھنڈ کی سمت چل پڑا۔ نالے کے دوسرے کنارے پر بانسوں کے جھنڈ کے قریب اسے شیر کے پنجوں کے نشانات دکھائی دیئے۔ وہیں لڑکے اور شیر کے درمیان ہلکی سی کشمکش کے آثار بھی موجود تھے۔ پھر لڑکے کو گھسیٹنے کی لکیر بھی موجود تھی۔
اس طرح پیگی پلہام کے آدم خور کا لوگوں کو پہلی مرتبہ پتا چلا۔
وقت گزرتا گیا اور اسی علاقے کے گردونواح میں انسانی شکار کی خبریں آنے لگیں۔ شیر ہر طرف پندرہ بیس میل دور مار کررہا تھا۔ اس کا آخری شکار ایک پندرہ سالہ لڑکا تھا جسے وہ دن دہاڑے کھیتوں میں سے اٹھا لے گیا تھا۔
اس آدم خور کے متعلق ایک اہم حقیقت وہ اطلاع تھی جو مجھ تک اس شیر کے ایک دوسرے انسانی شکار کے موقع پر پہنچی۔ یہ شکار اس نے اپنے اولین انسانی شکار یعنی ادھیڑ عمر گڈریئے کے لڑکے کے شکار کی جگہ سے کوئی تین میل کے فاصلے پر کیا تھا۔ تین آدمی جنگل کے اندر ایک کچے راستے پر چل رہے تھے۔ اس راستے کے ذریعے پہلے جنگل سے بانسوں کے چھکڑے بھر کر لائے جاتے تھے۔ آدم خور کی سرگرمیوں کے باعث لوگوں نے ایک دم جنگل میں جانا ترک کردیا تھا اور اب وہ فقط انتہائی ضرورت کے تحت ہی جنگل میں جاتے تھے۔ وہ لوگ بھی ایک اہم ضرورت کے تحت جنگل میں گئے تھے۔ کوئی دو بجے کا وقت ہوگا۔ انہوں نے اپنا دوپہر کا کھانا پیگی پلہام میں کھایا تھا اور تقریباً اپنی منزل مقصود تک پہنچ چکے تھے۔ وہ زیادہ سے زیادہ ساڑھے تین بجے پیگی پلہام پہنچنے کے متوقع تھے۔
اچانک کسی قسم کی آہٹ کے بغیر ایک شیر کچے راستے پر آن کھڑا ہوا۔ تینوں آدمی یکدم رک گئے۔ خوف کے مارے ان پر سکتہ طاری ہوگیا۔ تب شیر نے سب سے اگلے آدمی پر حملہ کیا۔ اس کے باقی دونوں ساتھی ایک قریبی درخت پر گرتے پڑتے چڑھ گیئے۔ اس دوران میں جس شخص پر شیر نے حملہ کیا اس نے انتہائی جرات کا ثبوت دیتے ہوئے اندھا دھند وہ برچھا شیر کے سر پر چلا دیا جو اس علاقے کے لوگ راستہ صاف کرنے کی غرض سے ہمیشہ اپنے پاس رکھتے تھے۔ برچھا شیر کے سر پر ایک طرف لگا اور اتنا حصہ کاٹ کر لے گیا۔ اس غیر متوقع حملے سے شیر درد سے گرجا۔ آدم خور شیر فطری طور پر بزدل ہوتا ہے۔ لہذا اس نے اپنا شکار چھوڑا اور جھاڑیوں میں روپوش ہوگیا۔
اسی اثناء میں اس کے دونوں ساتھی اندھا دھند ہاتھ پیر مارتے درخت کی چوٹی پر پہنچ چکے تھے اور اپنے نیچے یہ تماشہ دیکھ رہے تھے۔ ان کے ساتھی کے چہرے اور سینے پر گہرے زخم آئے تھے اور ان سے خون بہہ رہا تھا۔ کیونکہ شیر کے پنجوں نے اسے بری طرح زخمی کیا تھا۔ وہ صدمے سے سکتے کی حالت میں نیم بے ہوشی کے عالم میں زمین پر بیٹھا تھا۔ درخت پر چڑھے ہوئے آدمیوں نے اسے آواز دی، "بھائی جلدی سے درخت پر چڑھ آؤ۔" اس طرح زمین پر بیٹھنا خطرے سے خالی نہ تھا کیونکہ ہوسکتا تھا کہ شاید شیر پھر واپس لوٹ آئے۔
زخمی آدمی نے ان کی آواز سنی، اپنی لرزتی ٹانگوں پر کھڑا ہوا اور پھر اپنے سر سے پگڑی اتار کر اسے اپنے زخموں کے گرد لپیٹنے لگا۔ اس کے ساتھیوں نے اسے پھر پکارا اور وہ درخت پر چڑھنے کی نیت سے اس طرف چل پڑا۔ لیکن تقدیر نے اس کی زندگی کے دن پوری کردیئے تھے۔ آدم خور جو وقتی طور پر بزدل ہوگیا تھا ایک دم اشتعال میں آگیا۔ شاید اس کی وجہ اس کے سر کا زخم تھا۔ وہ برق رفتاری سے اس شخص پر جھپٹا اور اس کی گردن توڑ کر رکھ دی۔ ابھی وہ بے چارہ زمین پر گرنے بھی نہ پایا تھا کہ شیر نے اسے اپنے جبڑے میں دبوچا اور دونوں آدمیوں کے دیکھتے ہی دیکھتے جنگل میں روپوش ہوگیا۔
اس حادثے کے فورا بعد میں پیگی پلہام پہنچا اور ان دو آدمیوں سے اس حادثے کی تفصیلات جانیں۔ ان دونوں کے بیان بالکل ملتے تھے اور تفصیلات بھی صاف تھیں۔ وہ دونوں اس پر متفق تھے کہ شیر نے اپنے دونوں حملوں میں اپنے دانتوں کے بجائے اپنے پنجے استعمال کیئے تھے۔
کتنی ہی یادداشتیں ایک دم میرے ذہن میں عود کر آئیں۔ کہیں یہ راج نگر کا قاتل تو نہ تھا، جس نے پہلے مقابلے میں مجھے شکست دی تھی۔ اب وقت گزرنے کے ساتھ کہیں وہ زیادہ دلیر ہوکر آدم خور تو نہیں بن گیا تھا اور یوں اب پیگی پلہام کی مصیبت بن گیا تھا۔ ان دونوں آدمی کے بیانات سے تو یہی پتا چلتا تھا کہ یہ وہی درندہ ہے۔
میں نے فقط پیگی پلہام میں ہی نہیں بلکہ گردوپیش کے دو تین دیہات میں بھی اس شیر کے متعلق لوگوں سے کئی ایک باتیں پوچھیں۔ شیر کے کئی انسانی شکار اس حالت میں پائے گئے تھے کہ شیر نے انہیں نصف سے زیادہ نہ کھایا تھا۔ ان سب کے جسم پر پنجوں کے گہرے نشان تھے لیکن اس کے ساتھ ہی دانتوں کے نشان بھی نظر آتے تھے۔ اس بات کا کوئی فیصلہ کن ثبوت نہ ملتا تھا کہ شیر فقط اپنے پنجے سے اپنے شکار کو ہلاک کرتا ہے۔
پہلی دفعہ میں پیگی پلہام میں فقط ایک ہفتے تک قیام پزیر رہا۔ اس دوران میں آدم خور نے ان تین بیلوں میں سے کسی ایک کو بھی کچھ نہ کہا جو میں نے اسے ترغیب دینے کی خاطر مختلف جگہوں پر باندھے تھے۔ اس عرصے اس کے متعلق نہ ہی کوئی خبر سننے میں آئی۔ ادھر میری چھٹی ختم ہوگئی۔ اس میں توسیع کرانے کا میرے پاس کوئی جواز نہ تھا۔ لہذا میں بنگلور واپس چلا گیا۔
اس کے بعد جیسے میں بتا چکا ہوں کہ آدم خور نے دن دہاڑے ایک پندرہ سالہ لڑکے کو ہلاک کردیا تھا۔ جائے حادثہ سے کولے گھاٹ کا بڑا قصبہ فقط چھ میل دور تھا۔ اس دفعہ میرے بجائے میرا بیٹا ڈونلڈ اس کے پیچھے جارہا ہے۔ دیکھئے قسمت کس حد تک اس کا ساتھ دیتی ہے۔
ہم سب یہ جاننے کے خواہش مند ہیں کہ کیا موجودہ آدم خور "راج نگر کا قاتل" ہے یا کوئی دوسرا شیر۔ کیونکہ موجودہ آدم خور بھی راج نگر کے قاتل کی طرح پنجے سے اپنا شکار ہلاک کرتا ہے۔ یہ نکتہ اس وقت تک ثابت نہیں ہوسکتا جب تک ڈونلڈ اسے شکار کرنے میں کامیاب نہ ہوجائے۔ اگر وہ کامیاب ہوگیا تو بلا شبہ جنگل کا ایک عظیم بھید پالے گا۔
٭٭٭