ميں نہيں سمجھ سکا کہ آپ نيٹو کے کنٹينرز کی
چوری اور اس کے نتيجے ميں اسلحے اور سازوسامان کی دہشت گردوں تک منتقلی کے ليے امريکہ کو کيوں الزام دے رہے ہیں؟ يہ تو ايسے ہی ہے کہ جس کی چوری ہو جائے، الٹا اسے ہی قصوروار قرار ديا جائے۔ يہ معاملہ مقامی پوليس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دائرہ اختيار میں آتا ہے۔ ہم پاکستان کے اعلی حکام کے ساتھ ايسے واقعات کی روک تھام کے ليے ہر ممکن تعاون اور باہم مشاورت کرتے رہتے ہيں۔ يہ نہيں بھولنا چاہيے کہ
خود ہمارے اپنے فوجی بھی انھی دہشت گردوں اور عسکريت پسندوں کے خلاف برسر پيکار ہيں۔ اس تناظر ميں ان کنٹينرز سے اسلحے اور سازوسامان کی چوری سے ہماری کاوشوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہيں کيونکہ افغانستان ميں امريکی اور نيٹو افواج کی زندگيوں کو خطرات لاحق ہو جاتے ہيں۔
ايک بيرون ملک ميں نيٹو کے کنٹينرز کی سيکورٹی اور ان پر حملے کے واقعات کا ان سيکورٹی پروٹوکولز اور انتظامات سے تقابل کرنا جو امريکی ايٹمی ہتھياروں کی حفاظت کے ليے مخصوص کيے گئے ہيں ناقابل فہم اور ناانصافی پر مبنی ہو گا۔ يہ دونوں معاملات بالکل غير متعلق ہيں کيونکہ يہ رسائ اور درجہ بندی کے اعتبار سے بالکل مختلف حفاظتی زمرے میں آتے ہيں۔
جہاں تک امريکہ کے ايٹمی ہتھياروں کی حفاظت کا معاملہ ہے تو اس ضمن ميں امريکی حکومت اپنی ذمہ داريوں سے پوری طرح آگاہ ہے اور اس ضمن میں وضح کی گئ حدود اور قواعد وضوابط پر پوری طرح کاربند ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں ہے کہ امريکی ايٹمی ہتھيار مکمل طور پر محفوظ ہيں۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall