"پی ایچ ڈی کے مقالات کی تعداد بھی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ان مقالات میں ایک خرابی عام طور پر یہ ہوتی ہے کہ وہ ضروری و غیرضروری مواد کے ڈھیر سے لدے پھندے ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے ضخیم اور فربہ ہوتے ہیں۔ تحقیق کرنے والے کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اسے کیا شامل کرنا ہے اور کیا شامل نہیں کرنا ہے۔ تحقیق کا سارا رف ورک شامل کرنے سے مقالہ تو ضخیم ہوجاتا ہے لیکن اصل موضوع بےضرورت مواد اور پھیلاؤ کی وجہ سے دب کر رہ جاتا ہے۔ بعض مقالات کو پڑھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف تحقیق کرنے والا اس ملبے کے نیچے دب گیا ہے بلکہ اس نے راستہ بھی گم کردیا ہے۔ اب جدید رجحان یہ ہے کہ مقالات میں صرف ضروری مواد شامل کیا جائے اور اختصار و جامعیت پر زور دیا جائے۔ یہ رجحان وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جائے گا۔ موجودہ تحقیقی مقالات کی خرابی کے ذمہ دار وہ استاد ہیں جو جامعات میں ان مقالات کے نگران ہیں اور خود فنِ تحقیق و تدوین کے اصول و مسائل سے نابلد ہیں۔"
یہ اقتباس ڈاکٹر جمیل جالبی کے مضمون 'تحقیق کے جدید رجحانات' سے تعلق رکھتا ہے اور یہ مضمون انہوں نے 1982ء میں لکھا تھا۔ افسوس، صد افسوس کہ تین عشروں سے زیادہ وقت گزر چکنے کے باوجود ہم نے تحقیق و تدقیق کے سفر میں کوئی ترقی نہیں کی بلکہ اگر ہماری جامعات میں ہونے والی سندی تحقیق کی موجودہ صورتحال کو دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ ہم آگے کی بجائے پیچھے کی طرف جارہے ہیں۔ جالبی صاحب نے وقت کے ساتھ ساتھ تحقیقی رجحان کی ترقی کی جو بات کی تھی وہ کسی زندہ اور بیدار معاشرے پر تو صادق آسکتی ہے مگر ہم جیسے مردہ یا خوابیدہ معاشرے پر اس کا اطلاق شاید ممکن نہیں۔
اب ذرا اپنے جملہ تعصبات ایک طرف رکھ کر سوچئے کہ جس معاشرے میں پی ایچ ڈی جیسی اعلیٰ ترین ڈگری کے حصول کے لئے لوگ جھوٹ بولنے اور چوری چکاری پر یقین رکھتے ہوں وہاں ایک اوسط درجے کے پڑھے لکھے یا ان پڑھ سے زندگی کے مختلف امور کے ذیل میں کیا توقع کیا جاسکتی ہے؟ جہاں جدید جامعات کے آزاد ماحول میں روایتی یا معاصر تعلیم کے اعلیٰ ترین مرتبے پر فائز ہونے کے لئے لوگ تحقیق و تدقیق کا دامن تھامنے کی بجائے دھوکہ دہی، فریب کاری اور جعل سازی کا رجحان رکھتے ہوں، وہاں مسلکی بوجھ تلے دبے قدیم مدارس میں پڑھنے والے کمسن اور نوعمر بچوں سے ہم بھلا کس تحقیقی اور غیرجانبدارانہ رویے کی توقع کرسکتے ہیں؟ جہاں جدید اور خالص تحقیق کے نام پر گھسے پٹے اور فرسودہ خیالات و نظریات کو پرانی شراب کی طرح نئی بوتل میں بند کر کے پیش کرنے کا دستور مروج ہو، وہاں کسی اعلیٰ علمی و فکری روایت کے رواج پانے کی باتیں دیوانے کا خواب نہیں تو اور کیا ہیں؟
ہمارے ہاں سیاستدانوں کی جعلی ڈگریوں کے معاملات سامنے آئے اور بڑے بڑے نامور لوگوں کی پگڑیاں اچھلیں۔ اب ہائر ایجوکیشن کمیشن کو چاہئے کہ ذرا مختلف مضامین کے ماہرین کے طور پر پہچان رکھنے والے اور لاکھوں روپے ماہوار تنخواہیں اور مراعات پانے والے لوگوں کی بھی ڈگریوں کی پڑتال کرے تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ اپنے ناموں کے ساتھ عہدوں اور ڈگریوں کے سابقے لاحقے لگانے والے کتنے لوگ حقیقۃً ان سابقوں لاحقوں کے اہل ہیں۔ میں ادب و لسانیات کا ایک انتہائی ادنیٰ سا طالبعلم ہوں اور مجھے ان شعبہ ہائے علم کے حوالے سے معلوم ہے کہ لاہور کے بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں بیٹھے ہوئے کتنے ہی 'ڈاکٹر' ایسے ہیں جنہوں نے اقربا پروری کی بوتل سے نکلے ہوئے جن کی مدد سے ڈگریاں حاصل کر کے عہدے اور مراعات حاصل کیں اور نامور ہوئے۔