محمد حفیظ الرحمٰن
محفلین
پی کو موچی
از : پروین سرور
از : پروین سرور
دن بھر کی دوڑ دھوپ کے بعد جب پی کو شام کے وقت لدا پھندا اپنی دکان کی طرف لمبے لمبے قدم بڑھاتا واپس آنے لگا تو نہر کے کنارے مانو بلی سفید کوٹ اور سرخ پھندنے دار کانوں تک ڈھکی ٹوپی پہنے ، گلے میں جارجٹ کا پھول دار رومال لپیٹے ڈھول بجا بجا کر اعلان کر رہی تھی۔
کڑم ۔ دھم ۔ کڑم ۔ دھم ۔ آؤ بھائی ۔ آؤ بھائی ۔ آؤ ۔ آ کر ۔ کھاؤ مٹھائی ۔
لڈو ۔ پیڑے ۔ برفی ۔ جلیبی ۔
قلاقند ۔ رس گلے ۔ اور ۔ اِمرتی ۔
ڈھم ۔ ڈھم ۔ ڈھم ۔
پھول نگر کا میلہ دیکھو ۔ پریوں کا ناچ دیکھو ۔ چھما ۔ چھم ۔ چھما ۔ چھم ۔ چھن ۔ چھن ۔
بونوں کا جادو دیکھو ۔ ہاتھ کی صفائی ۔ اڑن ِ چھو ۔ ایک آنے میں دو مزے ۔ ایک نہیں ۔ سو مزے ۔ جھوٹ نہیں ہے میرے بھائی ۔ آؤ ۔ بھائی ۔ آؤ ۔ بھائی ۔ڈھم ۔ ڈھم ۔ کڑم ۔ دھم ۔ دھڑم ۔ دھم ۔
مانو بلی آنکھیں بند کئے ڈھول بجانے میں مگن تھی ۔ اور پی کو اس کے قریب ہی اپنے بڑھتے قدم روکے مزے مزے سے اعلان سن رہا تھا ۔ اچھی اچھی مٹھائیوں کے نام سن کر ہی اس کے منہ میں پانی بھر رہا تھا ۔
جب زیادہ دیر تک صبر نہ ہو سکا تو اس نے اپنے کندھے پر رکھا ہوا رنگ برنگ پنکھڑیوں اور سبز گھاس کا بوجھل تھیلا زمین پر رکھ کر بڑے شوق سے پوچھا ۔
" بی بلی ۔ اِس میلے میں کیا میں بھی آ سکتا ہوں ؟"
مانو بلی نے جھٹ اپنی آنکھیں کھولیں تو اس کے پھولے پھولے سرخ گالوں اور پھولی سی ناک کو دیکھ کر ہنس دی ۔
" ارے بھائی پی کو ۔ پریوں اور بونوں میں آتے کیا اچھے لگو گے؟"
" یوں تو نہ کہو " ۔ وہ شرما گیا ۔ " بہت بڑا ہوں کیا؟"
" نہیں ۔ اتنے بڑے بھی نہیں ہو ۔ مگر ۔"
" مگر کیا ؟ اتنے زوروں میں پھر ڈھول کیوں بجا رہی ہو ۔ میرا بھی جی چاہتا ہے کہ خوب مزے سے پریوں کا ناچ دیکھوں ۔ جادو دیکھوں ۔ اور مٹھائیاں کھاؤں۔"
" یہ اعلان تمھارے لیئے نہیں ہے پی کو ۔ یہ تو چڑیوں اور چوہیوں کے لیئے ہے "۔
پی کو آنکھیں مٹکا کر بولا ۔ " کوئی بات نہیں ہے ۔ نہ سہی ۔ تمھاری مرضی "۔
اس نے اپنا تھیلا واپس اپنے کندھے پر رکھا تو بلی کو کچھ شرم سی آئی ۔ وہ اس کا دِل رکھنے کے لیئے پوچھنے لگی ۔
" کہاں آئے تھے پی کو "؟
" نہر کے کنارے ۔ دکان کا سامان جمع کرنے "۔
" پھر ؟ لے لیا "؟
" ہاں "۔
" اب کہاں جاؤ گے "؟
" کہیں نہیں ۔ اپنی دکان پر ہی جاؤں گا ۔ تم میلے میں تو آنے دیتی نہیں ہو "۔
" پی کو بھائی "۔ بلی نے ڈھول گلے میں سے اتار کر زمین پر رکھا ۔ " میرے بس کی بات ہو تو میں تمھیں ہاتھ پکڑ کر میلے میں گھما لاؤں ۔ مگر بات یہ ہے کہ تمھارے جیسے لڑکوں کو دیکھ کر پریاں اپنا ناچ بھول جاتی ہیں ۔ اور بونے جادو کرتے کرتے گڑبڑا جاتے ہیں"۔
" میں انہیں کچھ کہوں گا تھوڑا ہی "۔ پی کو مچل کر بولا ۔
" ضد نہ کرو ۔ دیکھو ۔ یہ میلہ دس دن تک جنگل میں رہے گا ۔ جتنے بھی پیسے جمع ہوں گے وہ بیمار پرندوں اور چھوٹے چھوٹے جانوروں کے ہسپتال میں علاج کے لیئے دیئے جایئں گے ۔ اور ایک ایمبولینس خریدی جائے گی "۔
" تم روز یونہی ڈھول بجا بجا کر شور مچاؤ گی "؟
" ہاں ۔ مجھے یہی کام دیا گیا ہے ۔ اس لیئے کر رہی ہوں ۔"۔ مانو بلی نے سوکھا سا منہ بنایا ۔ پھر اچانک کچھ سوچ کر بولی ۔ " کچھ مدد تم بھی کر سکتے ہو "؟
" روپیہ دوں "؟ پی کو نے پوچھا ۔
" جیسی تمھاری مرضی "۔
"جوتے بھیج دوں "؟
" جو چاہو بھیج دو "۔
پی کو نے تھوڑی دیر کے لیئے اپنے ذہن پر زور دیا ۔ پھر چٹکی بجا کر بولا ۔ " ضرور ۔ میں ضرور تمھاری مدد کروں گا ۔ تم فکر مت کرو ۔ مانو بلی "۔
اس نے جھٹ پٹ اپنا تھیلا سنبھالا اور چلنے ہی کو تھا کہ بلی جھجکتے ہوئے بولی ۔
" ایک بات سنو پی کو "۔
" کہو "۔
" مجھے جوتے چاہیئں "۔ بلی رک رک کر بولی ۔
" کیسے "؟
"مور پنکھ جیسے "۔
" جب چاہو لے لو ۔ آج ہی دے دوں ۔ ابھی "؟
" ابھی نہیں ۔ ابھی تو ڈھول بجا بجا کر اعلان کرنا ہے ۔ میں رات کو آؤں گی "۔
" اچھا بلی بہن ۔ دکان تمھاری اپنی ہے ۔ جب چاہو آؤ ۔ جب چاہو جاؤ "۔
" ہائے ۔ پی کو ۔ تم کتنے اچھے ہو "۔
پی کو خوش ہو گیا ۔ اس نے اپنے کوٹ کی جیبیں ٹٹول کر ایک ٹافی بلی کے منہ میں ڈالتے ہوئے کہا ۔ " ممانو بلی ۔ یہ ایک ہی بچی تھی ۔ تم کھالو "۔
بلی مزے سے ٹافی کھاتے کھاتے بولی ۔ " جوتے تیار رکھنا ۔ میں رات کو آؤں گی "۔
"ضرور "۔ پی کو آگے بڑھ گےا تو بلی پھول نگر کے میلے کا اعلان کرتے کرتے دل ہی دل میں سوچنے لگی کہ کوئی جوتے بنانا تو پی کو سے سیکھے ۔ اِتنے نرم ۔ اِتنے ملائم اور اِتنے ہلکے جیسے جوتے نہیں پیروں میں پھول پہن رکھے ہوں ۔ چلو تو بے آواز ۔ بھاگو تو تیز رفتار اور اتارو تو شیشے کی طرح پھسل کر ہاتھ میں آ جایئں ۔ نہ پاؤں میں لگیں ۔ نہ پاؤں تھکیں ۔ نہ انگلیاں سوجیں ۔ نہ چھالے پڑیں ۔
پھر وہ ایک دم جیسے نیند سے چونک اٹھی ۔ جھٹ آنکھیں بند کر کے ڈھول بجانے لگی ۔ کڑم ۔ دھم ۔ دھڑم ۔ دھم ۔ آؤ ۔ آؤ ۔ جلدی آؤ ۔ بچوں کو ساتھ لے کر آؤ ۔ پھول نگر کا میلہ دیکھو ۔ ناچ دیکھع ۔ جادو دیکھو ۔ پری زادوں کے کرتب دیکھو ۔ آؤ ۔ آؤ ۔ آؤ ۔
ذرا سی دیر ڈھول پیٹنے کے بعد پھر ایک دم اسے پی کو کا خیال آ گیا ۔ اپنے آپ سے ہی کہنے لگی ۔ پی کو ہے بھی تو کتنا اچھا ۔ چھوٹا سا لڑکا ہے ۔ مگر بہت ہی پیارا ۔ اِدھر سورج نے جھانک کر سر اٹھایا ۔ ادھر وہ بستر سے باہر نکلا ۔ منہ ہاتھ دھو کر چائے پی اور پھر بیٹھ گیا جوتے سینے ۔ گیلے گیلے نوکیلے پتوں اور نرم نرم گھاس کو ٹھونک پیٹ کر ایسی شکل بناتا ہے کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے ۔ اپنی بات کا بھی بڑا پکا ہے ۔ اور میٹھا تو اِتنا ہے کہ باتوں باتوں میں گاہک کا دل ہی اڑا لیتا ہے ۔ سبھی کہتے ہیں کہ اس کے جوتوں کا تو کیا ، باتوں ہی کا مول نہیں ۔
ٹافی ختم ہو چکی تھی اس لیئے اپنی مونچھیں چاٹتے ہوئے اسے پی کو پر اتنا پیار آیا کہ اس نے ہر گزرنے والی چڑیا اور گلہری سے کہہ دیا کہ میلے میں آنے کے لیئے پی کو سے جوتے خرید کر پہنیں تاکہ وہ امیر ہو جائے اور پھر اس میلے کے لیئے روپے بھجوائے ۔
بلی کے پاس سے رخصت ہو کر پی کو نے جلدی جلدی قدم بڑھائے اور اپنی دکان کھولی ۔ کندھے پر سے گھاس اور پتیوں کا تھیلا اتار کر ایک کونے میں رکھا اور پھر جھاڑن لے کر شیشے کی اونچی اونچی الماریوں پر جمی ہوئی گرد جھاڑ کر صاف کی ۔ خوب صورت ڈبوں کو قرینے سے سجایا ۔ ڈبے باندھنے کے سرخ فیتے کی چرخی کو دیوار پر کیل کے سہارے لٹکایا ۔ آئینہ لگی دیواروں کو رگڑ رگڑ کر چمکایا ۔ دکان کے بیچوں بیچ رکھی ہوئی چمکدار گول میز پر سرخ اور سنہری تیرتی ہوئی مچھلیوں کے مرتبان میں تازہ پانی ڈالا ۔ نازک نازک جھولے جیسی جھولتی ہوئی کرسیوں کو ایک قطار میں رکھا اور پھر دکان کے دروازے پر پھیلی ہوئی چنبیلی کی بیل میں سے کچھ پھول توڑ کر ایک الماری پر رکھے ہوئے گلدان میں سجا دیئے ۔
وہ اپنے کام میں محو تھا ۔ اسے صرف یہی خیال تھا کہ کسی طرح بلی کو مور پنکھ کے جوتے پہنچا دیئے جائیں اس لیئے اس نے بہت جلدی سب کام ختم کیئے ۔ دکان میں ہر طرف جوتے ہی جوتے رکھے ہوئے تھے ۔ بوڑھے خرگوشوں کے لیئے گھٹنوں تک لمبے بوٹ ، خوب صورت بلیوں کے لیئے مخمل کے پھولوں کی عنابی گرگابیاں ، حسین خرگوشنیوں کے لیئے پھندنوں دار بے آواز پنکھڑیوں کی سلیپریں اور چپلیاں ، گلہریوں کے بچوں کے لیئے ستارے ٹکے کلیوں کے بوٹ ۔
اس نے اپنا کام ختم کر کے دروازے پر گری ہوئی چق ایک رسی سے باندھ کر اونچی کی تو ایک دم چوں چوں کی آواز سنائی دی ۔
( جاری ہے )
کڑم ۔ دھم ۔ کڑم ۔ دھم ۔ آؤ بھائی ۔ آؤ بھائی ۔ آؤ ۔ آ کر ۔ کھاؤ مٹھائی ۔
لڈو ۔ پیڑے ۔ برفی ۔ جلیبی ۔
قلاقند ۔ رس گلے ۔ اور ۔ اِمرتی ۔
ڈھم ۔ ڈھم ۔ ڈھم ۔
پھول نگر کا میلہ دیکھو ۔ پریوں کا ناچ دیکھو ۔ چھما ۔ چھم ۔ چھما ۔ چھم ۔ چھن ۔ چھن ۔
بونوں کا جادو دیکھو ۔ ہاتھ کی صفائی ۔ اڑن ِ چھو ۔ ایک آنے میں دو مزے ۔ ایک نہیں ۔ سو مزے ۔ جھوٹ نہیں ہے میرے بھائی ۔ آؤ ۔ بھائی ۔ آؤ ۔ بھائی ۔ڈھم ۔ ڈھم ۔ کڑم ۔ دھم ۔ دھڑم ۔ دھم ۔
مانو بلی آنکھیں بند کئے ڈھول بجانے میں مگن تھی ۔ اور پی کو اس کے قریب ہی اپنے بڑھتے قدم روکے مزے مزے سے اعلان سن رہا تھا ۔ اچھی اچھی مٹھائیوں کے نام سن کر ہی اس کے منہ میں پانی بھر رہا تھا ۔
جب زیادہ دیر تک صبر نہ ہو سکا تو اس نے اپنے کندھے پر رکھا ہوا رنگ برنگ پنکھڑیوں اور سبز گھاس کا بوجھل تھیلا زمین پر رکھ کر بڑے شوق سے پوچھا ۔
" بی بلی ۔ اِس میلے میں کیا میں بھی آ سکتا ہوں ؟"
مانو بلی نے جھٹ اپنی آنکھیں کھولیں تو اس کے پھولے پھولے سرخ گالوں اور پھولی سی ناک کو دیکھ کر ہنس دی ۔
" ارے بھائی پی کو ۔ پریوں اور بونوں میں آتے کیا اچھے لگو گے؟"
" یوں تو نہ کہو " ۔ وہ شرما گیا ۔ " بہت بڑا ہوں کیا؟"
" نہیں ۔ اتنے بڑے بھی نہیں ہو ۔ مگر ۔"
" مگر کیا ؟ اتنے زوروں میں پھر ڈھول کیوں بجا رہی ہو ۔ میرا بھی جی چاہتا ہے کہ خوب مزے سے پریوں کا ناچ دیکھوں ۔ جادو دیکھوں ۔ اور مٹھائیاں کھاؤں۔"
" یہ اعلان تمھارے لیئے نہیں ہے پی کو ۔ یہ تو چڑیوں اور چوہیوں کے لیئے ہے "۔
پی کو آنکھیں مٹکا کر بولا ۔ " کوئی بات نہیں ہے ۔ نہ سہی ۔ تمھاری مرضی "۔
اس نے اپنا تھیلا واپس اپنے کندھے پر رکھا تو بلی کو کچھ شرم سی آئی ۔ وہ اس کا دِل رکھنے کے لیئے پوچھنے لگی ۔
" کہاں آئے تھے پی کو "؟
" نہر کے کنارے ۔ دکان کا سامان جمع کرنے "۔
" پھر ؟ لے لیا "؟
" ہاں "۔
" اب کہاں جاؤ گے "؟
" کہیں نہیں ۔ اپنی دکان پر ہی جاؤں گا ۔ تم میلے میں تو آنے دیتی نہیں ہو "۔
" پی کو بھائی "۔ بلی نے ڈھول گلے میں سے اتار کر زمین پر رکھا ۔ " میرے بس کی بات ہو تو میں تمھیں ہاتھ پکڑ کر میلے میں گھما لاؤں ۔ مگر بات یہ ہے کہ تمھارے جیسے لڑکوں کو دیکھ کر پریاں اپنا ناچ بھول جاتی ہیں ۔ اور بونے جادو کرتے کرتے گڑبڑا جاتے ہیں"۔
" میں انہیں کچھ کہوں گا تھوڑا ہی "۔ پی کو مچل کر بولا ۔
" ضد نہ کرو ۔ دیکھو ۔ یہ میلہ دس دن تک جنگل میں رہے گا ۔ جتنے بھی پیسے جمع ہوں گے وہ بیمار پرندوں اور چھوٹے چھوٹے جانوروں کے ہسپتال میں علاج کے لیئے دیئے جایئں گے ۔ اور ایک ایمبولینس خریدی جائے گی "۔
" تم روز یونہی ڈھول بجا بجا کر شور مچاؤ گی "؟
" ہاں ۔ مجھے یہی کام دیا گیا ہے ۔ اس لیئے کر رہی ہوں ۔"۔ مانو بلی نے سوکھا سا منہ بنایا ۔ پھر اچانک کچھ سوچ کر بولی ۔ " کچھ مدد تم بھی کر سکتے ہو "؟
" روپیہ دوں "؟ پی کو نے پوچھا ۔
" جیسی تمھاری مرضی "۔
"جوتے بھیج دوں "؟
" جو چاہو بھیج دو "۔
پی کو نے تھوڑی دیر کے لیئے اپنے ذہن پر زور دیا ۔ پھر چٹکی بجا کر بولا ۔ " ضرور ۔ میں ضرور تمھاری مدد کروں گا ۔ تم فکر مت کرو ۔ مانو بلی "۔
اس نے جھٹ پٹ اپنا تھیلا سنبھالا اور چلنے ہی کو تھا کہ بلی جھجکتے ہوئے بولی ۔
" ایک بات سنو پی کو "۔
" کہو "۔
" مجھے جوتے چاہیئں "۔ بلی رک رک کر بولی ۔
" کیسے "؟
"مور پنکھ جیسے "۔
" جب چاہو لے لو ۔ آج ہی دے دوں ۔ ابھی "؟
" ابھی نہیں ۔ ابھی تو ڈھول بجا بجا کر اعلان کرنا ہے ۔ میں رات کو آؤں گی "۔
" اچھا بلی بہن ۔ دکان تمھاری اپنی ہے ۔ جب چاہو آؤ ۔ جب چاہو جاؤ "۔
" ہائے ۔ پی کو ۔ تم کتنے اچھے ہو "۔
پی کو خوش ہو گیا ۔ اس نے اپنے کوٹ کی جیبیں ٹٹول کر ایک ٹافی بلی کے منہ میں ڈالتے ہوئے کہا ۔ " ممانو بلی ۔ یہ ایک ہی بچی تھی ۔ تم کھالو "۔
بلی مزے سے ٹافی کھاتے کھاتے بولی ۔ " جوتے تیار رکھنا ۔ میں رات کو آؤں گی "۔
"ضرور "۔ پی کو آگے بڑھ گےا تو بلی پھول نگر کے میلے کا اعلان کرتے کرتے دل ہی دل میں سوچنے لگی کہ کوئی جوتے بنانا تو پی کو سے سیکھے ۔ اِتنے نرم ۔ اِتنے ملائم اور اِتنے ہلکے جیسے جوتے نہیں پیروں میں پھول پہن رکھے ہوں ۔ چلو تو بے آواز ۔ بھاگو تو تیز رفتار اور اتارو تو شیشے کی طرح پھسل کر ہاتھ میں آ جایئں ۔ نہ پاؤں میں لگیں ۔ نہ پاؤں تھکیں ۔ نہ انگلیاں سوجیں ۔ نہ چھالے پڑیں ۔
پھر وہ ایک دم جیسے نیند سے چونک اٹھی ۔ جھٹ آنکھیں بند کر کے ڈھول بجانے لگی ۔ کڑم ۔ دھم ۔ دھڑم ۔ دھم ۔ آؤ ۔ آؤ ۔ جلدی آؤ ۔ بچوں کو ساتھ لے کر آؤ ۔ پھول نگر کا میلہ دیکھو ۔ ناچ دیکھع ۔ جادو دیکھو ۔ پری زادوں کے کرتب دیکھو ۔ آؤ ۔ آؤ ۔ آؤ ۔
ذرا سی دیر ڈھول پیٹنے کے بعد پھر ایک دم اسے پی کو کا خیال آ گیا ۔ اپنے آپ سے ہی کہنے لگی ۔ پی کو ہے بھی تو کتنا اچھا ۔ چھوٹا سا لڑکا ہے ۔ مگر بہت ہی پیارا ۔ اِدھر سورج نے جھانک کر سر اٹھایا ۔ ادھر وہ بستر سے باہر نکلا ۔ منہ ہاتھ دھو کر چائے پی اور پھر بیٹھ گیا جوتے سینے ۔ گیلے گیلے نوکیلے پتوں اور نرم نرم گھاس کو ٹھونک پیٹ کر ایسی شکل بناتا ہے کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے ۔ اپنی بات کا بھی بڑا پکا ہے ۔ اور میٹھا تو اِتنا ہے کہ باتوں باتوں میں گاہک کا دل ہی اڑا لیتا ہے ۔ سبھی کہتے ہیں کہ اس کے جوتوں کا تو کیا ، باتوں ہی کا مول نہیں ۔
ٹافی ختم ہو چکی تھی اس لیئے اپنی مونچھیں چاٹتے ہوئے اسے پی کو پر اتنا پیار آیا کہ اس نے ہر گزرنے والی چڑیا اور گلہری سے کہہ دیا کہ میلے میں آنے کے لیئے پی کو سے جوتے خرید کر پہنیں تاکہ وہ امیر ہو جائے اور پھر اس میلے کے لیئے روپے بھجوائے ۔
بلی کے پاس سے رخصت ہو کر پی کو نے جلدی جلدی قدم بڑھائے اور اپنی دکان کھولی ۔ کندھے پر سے گھاس اور پتیوں کا تھیلا اتار کر ایک کونے میں رکھا اور پھر جھاڑن لے کر شیشے کی اونچی اونچی الماریوں پر جمی ہوئی گرد جھاڑ کر صاف کی ۔ خوب صورت ڈبوں کو قرینے سے سجایا ۔ ڈبے باندھنے کے سرخ فیتے کی چرخی کو دیوار پر کیل کے سہارے لٹکایا ۔ آئینہ لگی دیواروں کو رگڑ رگڑ کر چمکایا ۔ دکان کے بیچوں بیچ رکھی ہوئی چمکدار گول میز پر سرخ اور سنہری تیرتی ہوئی مچھلیوں کے مرتبان میں تازہ پانی ڈالا ۔ نازک نازک جھولے جیسی جھولتی ہوئی کرسیوں کو ایک قطار میں رکھا اور پھر دکان کے دروازے پر پھیلی ہوئی چنبیلی کی بیل میں سے کچھ پھول توڑ کر ایک الماری پر رکھے ہوئے گلدان میں سجا دیئے ۔
وہ اپنے کام میں محو تھا ۔ اسے صرف یہی خیال تھا کہ کسی طرح بلی کو مور پنکھ کے جوتے پہنچا دیئے جائیں اس لیئے اس نے بہت جلدی سب کام ختم کیئے ۔ دکان میں ہر طرف جوتے ہی جوتے رکھے ہوئے تھے ۔ بوڑھے خرگوشوں کے لیئے گھٹنوں تک لمبے بوٹ ، خوب صورت بلیوں کے لیئے مخمل کے پھولوں کی عنابی گرگابیاں ، حسین خرگوشنیوں کے لیئے پھندنوں دار بے آواز پنکھڑیوں کی سلیپریں اور چپلیاں ، گلہریوں کے بچوں کے لیئے ستارے ٹکے کلیوں کے بوٹ ۔
اس نے اپنا کام ختم کر کے دروازے پر گری ہوئی چق ایک رسی سے باندھ کر اونچی کی تو ایک دم چوں چوں کی آواز سنائی دی ۔
( جاری ہے )