چائے پیتے پیتے چند نکات سے مدد کیجیے۔

کل جس ادارے کی انعامی تقریب میں گیا ہوا تھا۔
غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ۔ ۱۹۹۷ء میں قائم ہوا۔ اور ان کا بنیادی کام ایسے علاقوں میں سکولز قائم کرنا ہے، جو دور دراز ہیں، اور وہاں تعلیم کی اطمینان بخش سہولیات میسر نہ ہوں۔ کام کا آغاز پنجاب سے کیا، اور اب ملک بھر میں ۷۰۰ سے زائد تعلیمی اداروں میں ۹۷۰۰۰ طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ جن میں کثیر تعداد الٹرا غریب گھرانوں کے بچوں کی ہے۔
ان کے سکولز کی فہرست
 

نبیل

تکنیکی معاون
وتعاونو علی البر واتقوی ولا تعاونو علی الاثم والعدوان

جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو

واتقو اللہ ان اللہ شدید العقاب

اللہ سے ڈرو، اس کی سز ا بہت سخت ہے
 

La Alma

لائبریرین
اگر تعلیمی اداروں سے معاشرے کی فلاح و بہبود کا کام لینا ہے تو سب سے پہلے تو ان کا اپنا قبلہ درست ہونا چاہیے. بچے کی شخصیت سازی اور تعمیرِ کردار میں جو افراد کلیدی حثیت رکھتے ہیں اگر ان کا hierarchical structure بنایا جائے تو والدین کے بعد جن افراد پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ اساتذہ ہیں. لہٰذا اولین ترجیح میرٹ کی بنیاد پر اہل اور باصلاحیت اساتذہ کا چناؤ ہونا چاہیے جو بہترین شخصی اوصاف کے مالک ہوں تاکہ وہ خوش اسلوبی سے اپنے فرائض کو انجام دے سکیں.
کمرشلزم کو جتنی جلدی ممکن ہو تعلیمی اداروں سے آؤٹ ہونا چاہیے. بزنس اور تعلیم کو بہرحال الگ الگ خانوں میں رکھنا ہو گا.
طبقاتی کشمکش کے خاتمے کا آغاز تعلیمی اداروں ہی سے ہونا چاہیے. اس کے لیے ضروری ہے کہ سب کے لیے یکساں اور معیاری نصاب کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے.
اگر curriculum کی غیر ضروری طوالت سے بچا جائے اور کچھ وقت غیر نصابی سرگرمیوں کے لیے وقف کر دیا جائے تو طلباء ان اوقات میں سماجی فلاح و بہبود اور دیگر ترقیاتی کاموں میں اپنی عمر، صلاحیت اور وسائل کے مطابق اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں.
طلباء میں شعور اور آگاہی پیدا کرنے کے لیے ورکشاپس اور سیمینارز کا انعقاد کروانا بھی ضروری ہے.
ہفتے میں کم از کم ایک tutorial period ایسا ہونا چاہیے جس میں طلباء کو مختلف ٹاسک دینے چاہیے. اور ان امور کی انجام دہی پر ان کی اس کوشش کو مارک کرنا چاہیے. تاکہ وہ ان بنیادوں پر بھی اپنا portfolio بِلڈ کر سکیں۔
تعلیمی اداروں میں کچھ ایسی motivational incentive schemes کو بھی متعارف کروانا چاہیے جو طلباء کو سماجی بہبود کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لینے کی ترغیب دے سکیں. یہ پرائز ، میڈل ، سرٹیفکیٹ یا کسی بھی صورت میں ہو سکتی ہیں.
لیکن یاد رہے یہ ترغیب ایسی نہیں ہونی چاہیے جس طرح جاسمن نے دی ہے . چائے کا لالچ دے کر سب کے بیان قلم بند کروا لیے لیکن چائے دی ہی نہیں.:):)
 

جاسمن

لائبریرین
آپ سب کے لئے ڈھیروں دعائیں۔@La Alma ہاہاہاہا۔
صحیح کہا۔ ابھی تو نہیں ان شاءاللہ جلد چائے پلاؤں گی۔
ابھی دعاؤں سے خوشی حاصل کرو۔
میں بے حد ممنون ہوں آپ سب کی۔
اللہ تعالیٰ آپ سب کو ڈھیروں خوشیاں، آسانیاں، کامیابیاں اور اپنی رضا عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

فاخر رضا

محفلین
بہت اچھا سلسلہ ہے. اس کے اختتام پر میں آپ احباب کی اجازت سے اسے پرنٹ کروا کر ان تمام احباب کو بھیجوں گا جو میرے علم میں ہیں اور تعلیم کے شعبے سے مخلص ہیں
ایک استاد زندگی بدل سکتا ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو خدا نے معلم بنا کا بھیجا تھا.
مجھے لگتا ہے کہ استاد اور شاگرد کا رشتہ دوبارہ استوار کرنے کی ضرورت ہے. شیخ یاسین ایک پرائمری اسکول ٹیچر تھے اور وہ ایک بڑی تحریک کا سبب بنے.
ہمارے ہاں اس رشتے کو زندہ کرنا چاہیے جہاں والدین استاد کو اپنے سے زیادہ اہمیت دیتے تھے اور اپنے بچوں کو بھی اس کا بتاتے تھے
اگر آپ لوگ ایک انڈین فلم دیکھ سکیں تو بہت سی اور باتیں بھی ملیں گی وہ فلم ہے rough book.
اس میں یہ دکھایا ہے کہ ایک ٹیچر کس طرح ڈی گریڈ والوں پر محنت کرتی ہے اور انہیں انسان بناتی ہے.
معاشرہ انسانوں سے بنتا ہے اور انسانوں کی فلاح کا ہر کام پسندیدہ ہے مگر ہر کام انسان کو انسان نہیں بناتا
انسان اپنی عقل، نطق اور اختیار کے باعث انسان ہے. ہاں اسے زندہ رہنے کے لئے روٹی کپڑا مکان چاہیے جیسا کہ حیوانات کو چاہیے.
عقل کا ایندھن علم ہے.
اب دیکھنا یہ ہے کہ ایک استاد یا تعلیمی ادارہ معاشرے میں عقل، علم، اختیار کی بابت کیا کردار ادا کرتا ہے
کیا تعلیمی اداروں میں اسٹوڈنٹ پالیٹکس کی اجازت ہے. کیا وہاں مباحثے ہوتے ہیں. کیا وہاں مختلف علوم کی سوسائٹیز موجود ہیں. کیا وہاں بنیادی علوم پر تحقیق ہورہی ہے.
ہمارے ہاں تعلیمی اداروں سے معاشرے کے لئے مفید افراد کی بجائے بھٹے کی اینٹیں تیار کی جاتی ہے جنہیں جہاں چاہو لگادو. وہ مسجد کی دیوار ہو یا اسکول کی یا کسی اور عمارت کی
بہت ہی آہم موضوع ہے، اسے وسعت دینے اور مزید کھولنے کی ضرورت ہے. یہ ان چند موضوعات میں سے ہے جن پر لکھنے سے اردو محفل کا معیار بلند ہوگا
 
ایک مثال رفاہ یونیورسٹی کی ہے۔
وہ ہر سمسٹر میں اپنے طلبا کو مختلف فلاحی اداروں کا وزٹ کرواتے ہیں اور ان کے ذمہ اس ادارے کے لیے مختلف کام لگاتے ہیں۔
مثلاً ایک بیچ کو اٹک میں موجود آرفن کیئر سنٹر بھیجا، جہاں انہوں نے بچوں میں تحائف تقسیم کیے۔ جس کے لیے فنڈنگ بھی انہی طلبا نے کی۔ ان بچوں کے ساتھ مل کر ادارے کے باہر شجر کاری کی۔ اور بعد میں انہی طلبا نے اس ادارے کے بچوں کو اسلام آباد کے مختلف پوائنٹس کی سیر کروائی۔
 
اسی طرح ایک بیچ کے ذمہ ایدھی سنٹر تھا۔ اب اس کے لیے ایکٹوٹیز کو پلان کرنا، فنڈنگ کرنا اور ایگزیکیوٹ کرنا دونوں طلبا کے ذمہ ہوتا ہے۔
 
ماشاءاللہ سب محفلین نے اپنی جانب سے بہترین نکات پیش کرے مگر معاشرے کے سدھار کے لیے تعلیم کے ساتھ بہترین روزگار بھی ضروری ہے ۔جب تک غریب اور کم آمدنی والے افراد کو بہترین روزگار کے مواقع میسر نہیں ہوں گے تو اس وقت تک بچوں کے لیے تعلیم حاصل کرنے میں مشکلات رہے گی۔
 
غریب اور کم آمدنی والے افراد اپنے بچوں کو کم عمری سے ہی اپنے گھریلو اخراجات کو پورے کرنے کے لیے ملازمت پر لگادیتے ہیں۔جس کی وجہ سے کم عمری سے ہی بچے کی شخصیت اور تربیت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں یا تو وہ اپنے اجداد کی طرح اپنے حالات سے سمجھوتا کر لیتا ہے یا پھر معاشرے کے فرسودہ نظام سے باغی ہو کر جرم کی دلدل میں قدم رکھ دیتا ہے۔
 
آخری تدوین:
ماشاءاللہ سب محفلین نے اپنی جانب سے بہترین نکات پیش کرے مگر معاشرے کے سدھار کے لیے تعلیم کے ساتھ بہترین روزگار بھی ضروری ہے ۔جب تک غریب اور کم آمدنی والے افراد کو بہترین روزگار کے مواقع میسر نہیں ہوں گے تو اس وقت تک بچوں کے لیے تعلیم حاصل کرنے میں مشکلات رہے گی۔
موضوع یہ ہے کہ معاشرے کی بہتری میں تعلیمی ادارے کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ :)
 
موضوع یہ ہے کہ معاشرے کی بہتری میں تعلیمی ادارے کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ :)
جی بھائی مگر معاشرے میں بہتری کے امکانات کے لیے روزگار کا مستقیل بنیاد پر میسر ہونا بھی ضروری ہے۔جب خاندان کا سربراہ اچھی آمدنی گھر لائے گا تو ہی اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں میں بھیجے گا۔:)
 
جی بھائی مگر معاشرے میں بہتری کے امکانات کے لیے روزگار کا مستقیل بنیاد پر میسر ہونا بھی ضروری ہے۔جب خاندان کا سربراہ اچھی آمدنی گھر لائے گا تو ہی اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں میں بھیجے گا۔:)
مسائل تو ہر طرح کے ہیں اور اہم ہیں، مگر گفتگو کو فوکس رہنا چاہیے، تاکہ جس موضوع پر بات ہو، اس کے تمام پہلو سامنے آ جائیں۔ دوسرے موضوعات کو بھی الگ ڈسکس کیا جائے۔ ورنہ بات بہت پھیل جاتی ہے اور حاصل کچھ نہیں ہوتا۔ :)
یہی وجہ تھی شروع میں موضوع کلیئر کرنے کی۔
 
مسائل تو ہر طرح کے ہیں اور اہم ہیں، مگر گفتگو کو فوکس رہنا چاہیے، تاکہ جس موضوع پر بات ہو، اس کے تمام پہلو سامنے آ جائیں۔ دوسرے موضوعات کو بھی الگ ڈسکس کیا جائے۔ ورنہ بات بہت پھیل جاتی ہے اور حاصل کچھ نہیں ہوتا۔ :)
یہی وجہ تھی شروع میں موضوع کلیئر کرنے کی۔
متفق :)
 
تابش بھائی کیا آج کی تعلیم سے معاشرہ اخلاقی پسماندگی کی طرف نہیں بڑھ رہا؟جہاں تعلیمی ادارے اپنا مثبت کردار ادا کر رہے وہاں منفی بھی رویہ بھی اپنا رکھا۔۔۔اخلاقی تعلیم کی ہمارے اداروں میں بہت کمی ہے۔۔۔اس کی بڑی وجہ پرائمری سطح کے اساتذہ کا غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے کیونکہ پرائمری والے بچے اپنے نفع نقصان سے کہاں آشنا ہوتے ہیں میٹرک کے بعد تو چلو کچھ نہ کچھ فہم ہوتا ہی ہے۔۔۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اس غیر ذمہ داری کی ایک وجہ اساتذہ کا میرٹ پر انتخاب نہ ہونا اور اساتذہ کا تربیت یافتہ نہ ہونا بھی ہے۔
اس کی ایک وجہ بغیر کسی پلاننگ اور شوق کے اس شعبے میں آنا ہے۔ ایسے لوگ کسی اور شعبے میں موقع نہ ملنے کی صورت میں ٹھیک ٹھاک محنت کر کے اساتذہ کی پوسٹ کے لیے منعقد امتحان کو پاس کر لیتے ہیں اور ملازمت ملنے کے بعد ہمہ وقت روزگار کے دیگر ذرائع کی تلاش میں مصروف رہتے ہیں۔ نتیجتا دروان ملازمت دی گئی تربیت بھی ان پر کوئی مثبت اثر چھوڑنے میں ناکام رہتی ہے۔
 
Top