اگر تعلیمی اداروں سے معاشرے کی فلاح و بہبود کا کام لینا ہے تو سب سے پہلے تو ان کا اپنا قبلہ درست ہونا چاہیے. بچے کی شخصیت سازی اور تعمیرِ کردار میں جو افراد کلیدی حثیت رکھتے ہیں اگر ان کا hierarchical structure بنایا جائے تو والدین کے بعد جن افراد پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ اساتذہ ہیں. لہٰذا اولین ترجیح میرٹ کی بنیاد پر اہل اور باصلاحیت اساتذہ کا چناؤ ہونا چاہیے جو بہترین شخصی اوصاف کے مالک ہوں تاکہ وہ خوش اسلوبی سے اپنے فرائض کو انجام دے سکیں.
کمرشلزم کو جتنی جلدی ممکن ہو تعلیمی اداروں سے آؤٹ ہونا چاہیے. بزنس اور تعلیم کو بہرحال الگ الگ خانوں میں رکھنا ہو گا.
طبقاتی کشمکش کے خاتمے کا آغاز تعلیمی اداروں ہی سے ہونا چاہیے. اس کے لیے ضروری ہے کہ سب کے لیے یکساں اور معیاری نصاب کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے.
اگر curriculum کی غیر ضروری طوالت سے بچا جائے اور کچھ وقت غیر نصابی سرگرمیوں کے لیے وقف کر دیا جائے تو طلباء ان اوقات میں سماجی فلاح و بہبود اور دیگر ترقیاتی کاموں میں اپنی عمر، صلاحیت اور وسائل کے مطابق اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں.
طلباء میں شعور اور آگاہی پیدا کرنے کے لیے ورکشاپس اور سیمینارز کا انعقاد کروانا بھی ضروری ہے.
ہفتے میں کم از کم ایک tutorial period ایسا ہونا چاہیے جس میں طلباء کو مختلف ٹاسک دینے چاہیے. اور ان امور کی انجام دہی پر ان کی اس کوشش کو مارک کرنا چاہیے. تاکہ وہ ان بنیادوں پر بھی اپنا portfolio بِلڈ کر سکیں۔
تعلیمی اداروں میں کچھ ایسی motivational incentive schemes کو بھی متعارف کروانا چاہیے جو طلباء کو سماجی بہبود کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لینے کی ترغیب دے سکیں. یہ پرائز ، میڈل ، سرٹیفکیٹ یا کسی بھی صورت میں ہو سکتی ہیں.
لیکن یاد رہے یہ ترغیب ایسی نہیں ہونی چاہیے جس طرح
جاسمن نے دی ہے . چائے کا لالچ دے کر سب کے بیان قلم بند کروا لیے لیکن چائے دی ہی نہیں.