یہ پڑھتے ہوئے وہ چائے چاہت والی کا خیال آ کیا
ٹے ٹارک: ملائیشیا کی گاڑھی میٹھی چائے جو لوگوں میں دوریاں مٹاتی ہے
،تصویر کا ذریعہTENGKU BAHAR
،تصویر کا کیپشن
لوگ کہتے ہیں کہ جب اس چائے کو بار بار ایک خاص بلندی سے گرایا جاتا ہے تو اس میں ہوا داخل ہو جاتی ہے، جس سے نہ صرف یہ مزید ذائقہ دار ہو جاتی ہے
جب ویٹر نے ایک جھاگدار مائع کو ٹین کے ایک پیالے سے دوسرے میں انڈھیلنا شروع کیا تو میں نے دیکھا کہ عین میرے سر کے اوپر سے اس گرما گرم مائع کی ایک خمدار لہر گزری اور ویٹر جوں جوں اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے پیالے کو اوپر لے جا رہا تھا، دونوں پیالوں کے درمیان فاصلہ بھی بڑھتا جا رہا تھا۔
مجھے لگا کہ ویٹر نے طبیعات کے بنیادی اصولوں کو ہی بدل ڈالا ہو، کیونکہ وہ جس زاویے سے اس مائع کی پتلی سے آبشار کو میز پر رکھے ہوئے شیشے کے گلاس میں گِرا رہا تھا وہ ناقابل یقین تھا۔ میں نے نظر اٹھا کر اس کمرے میں پھیلے ہوئے دھوئیں میں ادھر ادھر دیکھا تو وہاں مجھے ہر قسم کے لوگ بیٹھے کھانا کھاتے دکھائی دیے۔
ایک نوجوان انڈین خاتون تھوڑی دیر پہلے ہی ریستوران کے سامنے واقع ایک مندر سے لوٹی تھی، دوسری میز پر کچھ لوگ، جو اپنی وضع قطع سے بینکر دکھائی دیتے تھے، میز پر رکھے ہوئے ایک کاغذ کو بڑے غور سے دیکھ رہے تھے۔ ان کے برابر میں کچھ مسلمان سٹوڈنٹ بیٹھے ہوئے تھے جنھوں نے اپنے روایتی سینگکوک ہیٹ سر پر رکھی ہوئی تھی۔
ان کے علاوہ وہاں وردی میں ملبوس کچھ خاکروب بھی بیٹھے ہوئے تھے جو لگتا تھا کہ صبح صبح کام پر نکلنے کے بعد کچھ دیر سستانے کے لیے یہاں آ گئے تھے۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کمرے میں ایک چھوٹا سا ملائیشیا جمع ہو چکا ہے اور اس بلبلے دار گرم مشروب کا سحر ہر کسی کو یہاں کھینچ لایا ہے۔
،تصویر کا ذریعہMATT STIRN
،تصویر کا کیپشن
ٹے ٹارک کے معیار کا تعین اس بات سے کیا جاتا ہے کہ اسے کتنی دور تک ’کھینچا‘ گیا ہے
ملائشیا میں ایجاد ہونے والے اس گرم مشروب کو 'ٹے ٹارک' یا 'کھینچی ہوئی چائے' کہتے ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا کے تمام ممالک میں لوگ یہ چائے بہت شوق سے پیتے ہیں اور اس کی جائے پیدائش یعنی ملائیشیا میں تو اسے غیر سرکاری طور پر قومی مشروب کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔
کہنے کو یہ چائے بنانا کوئی زیادہ مشکل نہیں، بس کڑکدار چائے کی پتی میں گاڑھا دودھ (کنڈینسڈ مِلک) اور اچھی مقدار میں چینی ملا کر خوب پکنے دیں تو بظاہر ٹے ٹارک تیار ہے۔ اور اگر آپ ملائیشیا کے کسی بھی شہر میں دن کے کسی بھی پہر باہر نکلیں، آپ کو ہر سڑک پر جا بجا لوگوں کا جمگھٹا دکھائی دے گا جہاں ہر رنگ ونسل اور طبقے کے لوگ پلاسٹک کی کرسیوں پر بیٹھے دنیا کے ہر موضوع پر گپ شپ لگاتے، اس مشروب کی چسکیاں لیتے نظر آئیں گے۔
مختلف سڑکوں پر لگے ہوئے چائے کے یہ سٹال عموماً ایک شحص کی بجائے خاندان چلاتے ہیں اور ہر خاندان چائے بنانے کی اپنی اپنی خاندانی ترکیب کسی دوسرے شخص کو نہیں بتاتا۔ ٹے ٹارک کے معیار کا پیمانہ یہ ہوتا ہے کہ چائے کتنی دور تک 'کھینچی‘ گئی ہے یعنی جب اسے سٹیل کے برتن سے پیالے میں گرایا جا رہا تھا تو ان دونوں میں فاصلہ کتنا تھا۔
لوگ کہتے ہیں جب اس چائے کو بار بار ایک خاص بلندی سے گرایا جاتا ہے تو اس میں ہوا داخل ہو جاتی ہے، جس سے نہ صرف یہ مزید ذائقہ دار ہو جاتی ہے بلکہ اس پر وہ مخصوص جھاگ آ جاتی ہے جو آپ کو کسی دوسری چائے میں نہیں ملے گی۔ ملائشیا کے مختلف علاقوں میں جو شخص بھی اس فن میں ملکہ حاصل کر لیتا ہے وہ مقامی لوگوں میں مشہور ہو جاتا ہے اور اس کے کئی مداح بن جاتے ہیں۔
اگرچہ ٹے ٹارک کی مٹھاس اور کسی آمیزش سے پاک ذائقہ ہی اس کی شہرت کے لیے کافی ہے، تاہم اس کی ثقافتی و تاریخی اہمیت بہت گہری ہے اور اس چائے کو ملائیشیا میں بسنے والے مختلف لوگوں کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت، برداشت اور تنوع کی ایک بڑی علامت سمجھا جاتا ہے۔
جزیرہ پنانگ سے تعلق رکھنے والی ادیبہ اور سماجی کارکن سلمیٰ نسوشن خُو کہتی ہیں کہ 'ملائیشیا کے کثیر التہذیبی معاشرے سے مانوس ہونے کے لیے ہمارے پاس کئی برس کا عرصہ تھا۔ ہمارے آپس کے فرق کے باوجود، یہاں ہر کوئی اس بات کی اہمیت کو سمجھتا ہے کہ ہمیں واپس توازن کی طرف جانا ہے اور ایک دوسرے کا احترام کرنا ہے۔'
،تصویر کا ذریعہMATT STIRN
،تصویر کا کیپشن
بطور ملک ملائشیا ایک ایسا چوراہا ہے جہاں ایشیا کی مختلف تہذیبوں کا ملاپ دکھائی دیتا ہے
جس طرح ملائیشیا اس خطے کی قدیم ملّے تہذیب اور چینی، برطانوی اور جنوب ایشیائی تہذیبوں کے ملاپ سے بنا ہے، بالکل اسی طرح ٹی ٹارک ایک ایسا مائع ہے جس میں ہمیں ملائیشیا کی تمام تہذیبوں اور روایات کا عکس دکھائی دیتا ہے۔
سیاہ چائے کی پتّی اس علاقے میں پہلی مرتبہ سنہ 1830 کے عشرے میں چینیوں نے متعارف کرائی تھی، چائے کو 'کھینچنے' کا ہنر سنہ 1850 کے بعد کے برسوں میں جنوبی ایشیا سے آنے والے لوگوں کی تخلیق ہے، اور چائے میں دودھ اور شکر کی روایت تقریباً سو برس بعد برطانوی نو آبادیاتی دور ( 1867 تا 1975) کے اختتامی برسوں میں پروان چڑھی۔
چونکہ ٹے ٹارک کی تخلیق میں بہت سے ملکوں کی تہذیبوں نے اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے، اسی لیے چاہے ان کا تہذیبی پس منظر کچھ بھی ہو، ملائیشیا کے زیادہ تر لوگوں کو اس مشروب سے لگاؤ ہے۔
کارٹونسٹ، ادیب اور ماضی میں 'ٹی پُلر' (چائے کھینچنے والے) کا کام کرنے والے محمد عظمی کہتے ہیں کہ 'ٹی ٹارک ایک ایسی چیز ہے جو مختلف نسلوں، تہذیبوں اور مذاہب کے لوگوں کو آپس میں جوڑ سکتی ہے۔ (نسلی اور مذہبی فرق کے باوجود) ہم سب اکٹھے ایک جگہ بیٹھ سکتے ہیں اور ایک ہی مشروب پی سکتے ہیں اور چاہے تھوڑی دیر کے لیے سہی، آپس کے فرق کو بھول سکتے ہیں۔'
اس خاص چائے کے متعلق میں نے پہلی مرتبہ اس وقت سنا تھا جب میں کوالا لمپور سے آئے ہوئے دوست خِم فام کے ساتھ سنگاپور میں گھوم پھر رہا تھا۔
سماجی کارکن سلمیٰ نسوشن خُو کہتی ہیں کہ دنیا کے تمام ’شہروں اور ملکوں کا مستقبل ثقافتی تنوع میں ہے‘ اور ماہر بشریات شمسُل کے بقول یہ دور ’تنازعات پر بات کرنے اور ہم آہنگی پیدا کرنے‘ کا دور ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس بدلتی دنیا میں لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر رہنا سیکھیں اور شاید ٹے ٹارک ہمیں یہ سکھا سکتی ہے کہ مل جُل کر کیسے رہتے ہیں۔
میں جب سے ملائشیا سے لوٹا ہوں، اکثر خود کو اس اہم سبق کے بارے میں سوچتا پاتا ہوں جو ہمیں ٹے ٹارک سے ملتا ہے۔ میں جب بھی کوئی افسردہ کر دینے والی خبر دیکھتا ہوں یا مجھے لگتا ہے کہ دنیا ایک دوسرے سے جُڑنے کی بجائے تقسیم ہو رہی ہے، تو مجھے سکون اس وقت ملتا ہے جب میں اپنے خفیہ خزانے سے ملائیشیئن چائے کی چھوٹی تھیلی نکالتا ہوں اور یہ میٹھا مشروب بنانے لگتا ہوں۔
اگرچہ مجھے ابھی تک چائے ’کھینچنے‘ میں کوئی مہارت حاصل نہیں ہوئی، لیکن میں اپنے کپ میں کچھ حوصلہ افزا بلبلے بنا لیتا ہوں۔ چائے کا یہ کپ مجھے یاد دلا دیتا ہے کہ لوگوں کو آپس میں جوڑنے کے لیے آپ کو صرف ایک چھوٹی سے چیز چاہیے جو آپ میں مشترک ہو اور اس میں صرف ایک چمچ گاڑھا دودھ۔
ہندوستانی، چینی اور برطانوی روایات کے ملاپ سے تیار ہونے والا چائے کا وہ کپ جو ملائیشیا میں معاشرتی ہم آہنگی کی علامت بن گیا۔
www.bbc.com