سلمان حمید
محفلین
چارپائی
باہر بہت تیز بارش ہو رہی ہے. میں کھڑکی سے ایک ڈیڑھ گز کے فاصلے پر پڑے بستر میں لیٹا اور رضائی میں دبکا بارش کے شور پر بڑے انہماک سے کان لگائے اس مخمصے میں ہوں کہ یہ آواز بارش کے قطروں کے زمین پر گرنے کی ہے یا گھر کے آنگن میں لگے درختوں کے پتوں سے ٹکرانے کی. اس جانب گھاس لگی ہے تو اس پر گر کر بارش بھلا کیا شور کرے گی. میں اپنی بیوقوفی پر مسکرا دیا. ہوا بھی چل رہی ہو گی جس کی وجہ سے درختوں کے پتے اپنے اوپر گرتی بارش کو لہرا لہرا کر جھٹک رہے ہوں گے اور ایک دوسرے سے ٹکرا کر شور مچا رہے ہوں گے. رات کے دو بجنے والے ہیں اور یہی سوچتے سوچتے میں پاکستان اپنے آبائی گھر کے صحن میں چادر اپنے اوپر لپیٹ کر سوئے ہوئے اس نو عمر وجود کے اندر پہنچ گیا جو اسی طرح کی ایک سیاہ رات میں چھائے ہوئے بادلوں اور ہلکی ہلکی چلتی ہوئی ٹھنڈی ہوا میں آدھی رات کو بارش نہ ہونے کی دعا کر تے کرتے کھلے آسماں تلے سو گیا تھا. امی نے رات کے کسی پہر اٹھ کر مجھے سکڑا ہوا دیکھ کر میرے قریب چلتا ہوا پنکھا بھی بند کر دیا تھا. بجلی کڑکی تھی یا نہیں لیکن بادل بہت زور سے گرجا تھا اور ساتھ ہی اپنے اوپر پڑتی ہوئی تیز بارش کی بوندوں سے بچنے کے لیے اپنے منہ کے اوپر تک کھینچ لینے والی چادر آج بھی یاد ہے. وہ چند لمحے جن میں بارش رک جانے کی دعا کبھی قبول نہیں ہوئی، گزر جانے کے بعد ہمیشہ افراتفری میں اٹھنے، ادھ کھلی آنکھوں سے چادر اور تکیہ سمیٹ کر اندر رکھنے اور چارپائی گھسیٹ کر صحن کی ایک جانب بنے شیڈ کے نیچے کر کے لیٹ جانے کا منظر آج بھی اتنا ہی صاف ہے جیسے کل کی ہی بات ہو. تیز ہوا کے ساتھ بارش کے چند قطرے اپنے اوپر گرنا اور پاؤں زمین پر لگا کر چارپائی مزید پیچھے کی جانب گھسیٹنا کیسے بھول سکتا ہوں. اس کے بعد فضا میں چھائی ہوئی خنکی میں چادر کو مزید اپنے گرد لپیٹ کر چلتی ہوئی ہوا کی تھپکیوں سے جب تک گہری نیند میں نہیں جا پہنچتا، ایسے ہی بارش کا شور سنتا رہتا تھا. گھر کا تو صحن بھی پکا تھا تو پھر آج بھی بارش کا شور ویسا ہی کیوں ہے؟ بارش تو بارش ہوتی ہے چاہے پاکستان میں ہو یا جرمنی میں، اور اس کا شور بھی ایک جیسا. اپنے سوال کا خود ہی جواب دے کر میں نے رضائی سے نکلے ہوئے اپنے پاؤں سمیٹ کر رضائی کے اندر کر لیے ہیں. شاید کمرے کی دوسری جانب کی کھڑکی کھلی رہ گئی ہے جہاں سے ہوا چپکے سے اندر آ رہی ہے اور سارے کمرے کی فضا میں خنکی بھر رہی ہے. میں نے اپنے پہلو میں سوئے ہوئے اپنے تین سالہ بیٹے ارحم کو اپنے ساتھ لگا لیا ہے. آدھی رات ہے، وہی ٹھنڈی فضا ہے اور وہی بارش کا شور. بس جو نہیں ہے وہ امی کی آواز سن کر جلدی سے اٹھنا اور چارپائی گھسیٹ کر شیڈ کے نیچے کرنا نہیں ہے.
سلمان حمید
نوٹ: چونکہ میں کوئی لکھاری نہیں ہوں تو املاء کی اور دیگر اغلاط کی نشاندہی کرتے ہوئے داد سے بھی نوازتے جائیے گا۔ شکریہ
باہر بہت تیز بارش ہو رہی ہے. میں کھڑکی سے ایک ڈیڑھ گز کے فاصلے پر پڑے بستر میں لیٹا اور رضائی میں دبکا بارش کے شور پر بڑے انہماک سے کان لگائے اس مخمصے میں ہوں کہ یہ آواز بارش کے قطروں کے زمین پر گرنے کی ہے یا گھر کے آنگن میں لگے درختوں کے پتوں سے ٹکرانے کی. اس جانب گھاس لگی ہے تو اس پر گر کر بارش بھلا کیا شور کرے گی. میں اپنی بیوقوفی پر مسکرا دیا. ہوا بھی چل رہی ہو گی جس کی وجہ سے درختوں کے پتے اپنے اوپر گرتی بارش کو لہرا لہرا کر جھٹک رہے ہوں گے اور ایک دوسرے سے ٹکرا کر شور مچا رہے ہوں گے. رات کے دو بجنے والے ہیں اور یہی سوچتے سوچتے میں پاکستان اپنے آبائی گھر کے صحن میں چادر اپنے اوپر لپیٹ کر سوئے ہوئے اس نو عمر وجود کے اندر پہنچ گیا جو اسی طرح کی ایک سیاہ رات میں چھائے ہوئے بادلوں اور ہلکی ہلکی چلتی ہوئی ٹھنڈی ہوا میں آدھی رات کو بارش نہ ہونے کی دعا کر تے کرتے کھلے آسماں تلے سو گیا تھا. امی نے رات کے کسی پہر اٹھ کر مجھے سکڑا ہوا دیکھ کر میرے قریب چلتا ہوا پنکھا بھی بند کر دیا تھا. بجلی کڑکی تھی یا نہیں لیکن بادل بہت زور سے گرجا تھا اور ساتھ ہی اپنے اوپر پڑتی ہوئی تیز بارش کی بوندوں سے بچنے کے لیے اپنے منہ کے اوپر تک کھینچ لینے والی چادر آج بھی یاد ہے. وہ چند لمحے جن میں بارش رک جانے کی دعا کبھی قبول نہیں ہوئی، گزر جانے کے بعد ہمیشہ افراتفری میں اٹھنے، ادھ کھلی آنکھوں سے چادر اور تکیہ سمیٹ کر اندر رکھنے اور چارپائی گھسیٹ کر صحن کی ایک جانب بنے شیڈ کے نیچے کر کے لیٹ جانے کا منظر آج بھی اتنا ہی صاف ہے جیسے کل کی ہی بات ہو. تیز ہوا کے ساتھ بارش کے چند قطرے اپنے اوپر گرنا اور پاؤں زمین پر لگا کر چارپائی مزید پیچھے کی جانب گھسیٹنا کیسے بھول سکتا ہوں. اس کے بعد فضا میں چھائی ہوئی خنکی میں چادر کو مزید اپنے گرد لپیٹ کر چلتی ہوئی ہوا کی تھپکیوں سے جب تک گہری نیند میں نہیں جا پہنچتا، ایسے ہی بارش کا شور سنتا رہتا تھا. گھر کا تو صحن بھی پکا تھا تو پھر آج بھی بارش کا شور ویسا ہی کیوں ہے؟ بارش تو بارش ہوتی ہے چاہے پاکستان میں ہو یا جرمنی میں، اور اس کا شور بھی ایک جیسا. اپنے سوال کا خود ہی جواب دے کر میں نے رضائی سے نکلے ہوئے اپنے پاؤں سمیٹ کر رضائی کے اندر کر لیے ہیں. شاید کمرے کی دوسری جانب کی کھڑکی کھلی رہ گئی ہے جہاں سے ہوا چپکے سے اندر آ رہی ہے اور سارے کمرے کی فضا میں خنکی بھر رہی ہے. میں نے اپنے پہلو میں سوئے ہوئے اپنے تین سالہ بیٹے ارحم کو اپنے ساتھ لگا لیا ہے. آدھی رات ہے، وہی ٹھنڈی فضا ہے اور وہی بارش کا شور. بس جو نہیں ہے وہ امی کی آواز سن کر جلدی سے اٹھنا اور چارپائی گھسیٹ کر شیڈ کے نیچے کرنا نہیں ہے.
سلمان حمید
نوٹ: چونکہ میں کوئی لکھاری نہیں ہوں تو املاء کی اور دیگر اغلاط کی نشاندہی کرتے ہوئے داد سے بھی نوازتے جائیے گا۔ شکریہ