سیما علی
لائبریرین
چارپائی اور یوسفی صاحب
سچ تو یہ ہے کہ جہاں چارپائی ہو وہاں کسی فرنیچر کی ضرورت، نہ گنجائش، نہ تک ۔ انگلستان کا موسم اگر اتنا ذلیل نہ ہوتا اور انگریزوں نے بروقت چارپائی ایجاد نہ کر لی ہوتی تو وہ موجودہ فرنیچر کی کھکھیڑ سے بچ جاتے، پھر آرام دہ چارپائی چھوڑ کر کالونیز بنانے کی خاطر گھر سے نکلنے کو بھی ان کا دل نہ چاہتا۔ “اوول کوڈ سورج ‘‘ بھی ان کی سلطنت ایک صدی تک ہمہ وقت چمکتے رہنے کی ڈیوٹی سے بچ جاتا اور کم از کم آج کل کے حالات میں بے کار پڑے رہنے کیلئے ان کے گھر میں کوئی ڈھنگ کی چیز تو ہوتی ۔ ہم نے ایک دن پروفیسر ڈاکٹر قاضی عبدالقدوس ( ایم اے ) بی ٹی سے کہا کہ بقول آپ کے انگریز تمام ایجادات کے موجد ہیں بہت پریکٹیکل ہیں ۔ حیرت ہے چارپائی استعمال نہیں کر تے۔ بولے” اوہ وائی کسنے سے کتراتے ہیں‘‘۔ راقم الحروف کے خیال میں ایک بنیادی فرق کا ضرور خیال رکھنا چاہیئے کہ یورپی فرنیچر صرف بیٹھنے کیلئے ہوتا ہے اور ہم کسی ایسی چیز پر بیٹھتے ہی نہیں جس پر لیٹ نہ سکیں۔
دری ، گدے ، قالین، جازم ، چارپائی، کوچہ یار کو بھی پیش کیا جاسکتا ہے۔ ایک چیز ہمارے ہاں البتہ ایسی تھی جسے صرف بیٹھنے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ اسے حکمرانوں کا تخت کہتے ہیں لیکن جب اسی پر لٹا کر نہلا دیا جاتا تو یہی تخت تختہ کہلاتا تھا اور اس عمل کو تختہ الٹنا کہتے ہیں۔ اس تمہید کا مقصد غیر دل پذیر کہ یہ ہے کہ جہاں چارپائی کا چلن ہو وہاں فرنیجر کا بزنس پنپ نہیں سکتا۔ اب اسے چوب عمارتی کہیے یا کچھ اور دھندہ ہمیشہ اس کا مندا ہی رہتا تھا کہ دکانوں کی تعداد گاہکوں سے زیادہ تھی۔ لہٰذا کوئی ایسا شخص نظر آ جائے جو حلیے اور چال ڈھال سے ذرا بھی گھاگ معلوم ہوا تو لکڑ منڈی کے دکاندار اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ بیشتر گاہک گردونواح کے دیہاتی ہوتے جو زندگی میں پہلی اور آخری بار لکڑی خریدنے کان پور آتے ۔ ان بیچاروں کا لکڑی سے دو ہی مرتبہ واسطہ پڑتا ایک اپنا گھر بناتے وقت اور دوسرا اپنا کریا کرم کرواتے ہوئے۔
مشتاق احمد یوسفی
سچ تو یہ ہے کہ جہاں چارپائی ہو وہاں کسی فرنیچر کی ضرورت، نہ گنجائش، نہ تک ۔ انگلستان کا موسم اگر اتنا ذلیل نہ ہوتا اور انگریزوں نے بروقت چارپائی ایجاد نہ کر لی ہوتی تو وہ موجودہ فرنیچر کی کھکھیڑ سے بچ جاتے، پھر آرام دہ چارپائی چھوڑ کر کالونیز بنانے کی خاطر گھر سے نکلنے کو بھی ان کا دل نہ چاہتا۔ “اوول کوڈ سورج ‘‘ بھی ان کی سلطنت ایک صدی تک ہمہ وقت چمکتے رہنے کی ڈیوٹی سے بچ جاتا اور کم از کم آج کل کے حالات میں بے کار پڑے رہنے کیلئے ان کے گھر میں کوئی ڈھنگ کی چیز تو ہوتی ۔ ہم نے ایک دن پروفیسر ڈاکٹر قاضی عبدالقدوس ( ایم اے ) بی ٹی سے کہا کہ بقول آپ کے انگریز تمام ایجادات کے موجد ہیں بہت پریکٹیکل ہیں ۔ حیرت ہے چارپائی استعمال نہیں کر تے۔ بولے” اوہ وائی کسنے سے کتراتے ہیں‘‘۔ راقم الحروف کے خیال میں ایک بنیادی فرق کا ضرور خیال رکھنا چاہیئے کہ یورپی فرنیچر صرف بیٹھنے کیلئے ہوتا ہے اور ہم کسی ایسی چیز پر بیٹھتے ہی نہیں جس پر لیٹ نہ سکیں۔
دری ، گدے ، قالین، جازم ، چارپائی، کوچہ یار کو بھی پیش کیا جاسکتا ہے۔ ایک چیز ہمارے ہاں البتہ ایسی تھی جسے صرف بیٹھنے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ اسے حکمرانوں کا تخت کہتے ہیں لیکن جب اسی پر لٹا کر نہلا دیا جاتا تو یہی تخت تختہ کہلاتا تھا اور اس عمل کو تختہ الٹنا کہتے ہیں۔ اس تمہید کا مقصد غیر دل پذیر کہ یہ ہے کہ جہاں چارپائی کا چلن ہو وہاں فرنیجر کا بزنس پنپ نہیں سکتا۔ اب اسے چوب عمارتی کہیے یا کچھ اور دھندہ ہمیشہ اس کا مندا ہی رہتا تھا کہ دکانوں کی تعداد گاہکوں سے زیادہ تھی۔ لہٰذا کوئی ایسا شخص نظر آ جائے جو حلیے اور چال ڈھال سے ذرا بھی گھاگ معلوم ہوا تو لکڑ منڈی کے دکاندار اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ بیشتر گاہک گردونواح کے دیہاتی ہوتے جو زندگی میں پہلی اور آخری بار لکڑی خریدنے کان پور آتے ۔ ان بیچاروں کا لکڑی سے دو ہی مرتبہ واسطہ پڑتا ایک اپنا گھر بناتے وقت اور دوسرا اپنا کریا کرم کرواتے ہوئے۔
مشتاق احمد یوسفی