چاند تاروں سے بات کیا کرنی
دن ہے مشکل تو رات کیا کرنی
ہم ازل کے غلام ابن غلام
شاہ زادی سے بات کیا کرنی
ہم نہیں ہیں زمیں کے قابل بھی
ہم نے یہ کائنات کیا کرنی
چند لمحے سکوں کے مل جائیں
عمر بھر کی نجات کیا کرنی
جو میسر ہے یار کافی ہے
خواہش ممکنات کیا کرنی
ایک ناکردہ چھوڑ دیتے ہیں
آخری واردات کیا کرنی
اتنے چھوٹے بڑے خداؤں میں
ایک آدم کی ذات کیا کرنی
عرض پا جتنا سائباں اپنا
اتنی لمبی قنات کیا کرنی
قصر سارا ہے سازشی ناصر
راہ داری میں گھات کیا کرنی
دن ہے مشکل تو رات کیا کرنی
ہم ازل کے غلام ابن غلام
شاہ زادی سے بات کیا کرنی
ہم نہیں ہیں زمیں کے قابل بھی
ہم نے یہ کائنات کیا کرنی
چند لمحے سکوں کے مل جائیں
عمر بھر کی نجات کیا کرنی
جو میسر ہے یار کافی ہے
خواہش ممکنات کیا کرنی
ایک ناکردہ چھوڑ دیتے ہیں
آخری واردات کیا کرنی
اتنے چھوٹے بڑے خداؤں میں
ایک آدم کی ذات کیا کرنی
عرض پا جتنا سائباں اپنا
اتنی لمبی قنات کیا کرنی
قصر سارا ہے سازشی ناصر
راہ داری میں گھات کیا کرنی