چاند تاروں کو یا پھولوں کو مستعار لیا - برائے اصلاح و تنقید

الف عین

لائبریرین
کبھی گلاب کبھی چاند مستعار لیا
ترے فراق کا موسم یونہی گزار لیا
//واہ، اچھا شعر کہا ہے۔ ویسے ’گزار دیا‘ زیادہ درست ہوتا، لیکن ردیف کی وجہ سے مجبوری ہے۔

عجیب موسم گل کا نکھار ہے اب کے
لگے کہ تجھ سے بہاروں نے کچھ ادھار لیا
//’لگے کہ‘ اچھا نہیں لگ رہا اس کی جگہ یوں کہا جا سکتا ہے
عجیب موسم گل کا نکھار ہے ، یہ لگے
کہ جیسےتجھ سے بہاروں نے کچھ ادھار لیا

جو صورتیں ہی بدل کے نگاہ میں رہتا
اسی نے آج گماں کا ہے روپ دھار لیا
//پہلا مصرع زیادہ رواں ہو سکتا ہے
بدل بدل کے جو چہرے/صورت، نظر میں رہتا تھا
یا اسد کا تجویز کردہ مصرع
بدل بدل کے جو صورت نگاہ میں ہی رہا

چراغ شب وہ سحر تک نہ بجھ ہی پایا تھا
گو بام و در سے ترا ہر نشاں اتار لیا
//‘گو بام و در‘ صوتی طور سے اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ ’اگرچہ‘ بہتر ہو شاید۔ لیکن تب بام و در سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ پہلے مصرع بھی روانی کی کمی ہے۔ایک صورت یہ ممکن ہے
چراغ شب وہ سحر تک ہوا نہ گل سارہؔ
اگرچہ چھت سے ترا ہر نشاں اتار لیا

مری صدا ہے فضاوں میں آج بھی ٹھہری
گھڑی بھی کیا تھی نہ جانے کسے پکار لیا
// اسد کا مشورہ پسند آیا ہے مجھے بھی
مری صدا ہے فضاوں میں آج بھی ٹھہری
نہ جانے کیسے، کہاں سے، کسے پکار لیا
 
Top