ذیل کے اشعار تمام کے تمام چاند کو دیکھ کر کہے گئے ہیں۔ ان کا پس منظر یہ ہے کہ امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدصاحب جب کراچی کے دورے پر آئے تو ایک شام ساحل سمندر پر سیر کو تشریف لے گئے۔ سمندر کے کنارے چہل قدمی کرتے ہوئے آسمان پر چاند کا منظر تھا، اسی وقت کچھ اشعار انہوں نے کہے جن میں سے ہر شعر کا ایک الگ پس منظر انہوں نے بیان کیا تھا وہ تو زہن میں نہیں لیکن اشعار درج ذیل ہیں۔
یوٰں اندھیری رات میں اے چاند تُو چمکا نہ کر
حشر اک سیمیں بدن کی یاد میں برپا نہ کر
کیا لب دریا مری بے تابیاں کافی نہیں
تو جگر کو چاک کرکے اپنے یُوں تڑپا نہ کر
دُور رہنا اپنے عاشق سے نہیں دیتا ہے زیب
آسماں پر بیٹھ کر تُو یُوں مجھے دیکھا نہ کر
عکس تیرا چاند میں گر دیکھ لُوں کیا عیب ہے
اس طرح تُو چاند سے اے میری جاں پردہ نہ کر
بیٹھ کر جب عشق کی کشتی میں آؤں تیرے پاس
آگے آگے چاند کی مانند تُو بھاگا نہ کر
اے شعاع نُور یوں ظاہر نہ کر میرے عیوب
غیر ہیں چاروں طرف ان میں مجھے رسوا نہ کر
ہے محبت ایک پاکیزہ امانت اے عزیز
عشق کی عزت ہے واجب عشق سے کھیلا نہ کر
ہے عمل میں کامیابی موت میں ہے زندگی
جا لپٹ جا لہر سے دریا کی کچھ پروا نہ کر