مزمل شیخ بسمل
محفلین
چاند پر اِک مے کدہ آباد ہونا چاہیے
یا محبت کو یہیں آزاد ہونا چاہیے
قاضیِ محشر! تری مرضی ، ہماری سوچ ہے
ظالموں کو دُنیا میں برباد ہونا چاہیے
روح کے بے رنگ افق پر، رات بھر گونجی ندا
دل پرندہ، فکر سے آزاد ہونا چاہئیے
خواہشِ جنت میں کرتے ہیں جو زاہد نیکیاں
نام اُن کا ’’متقی شداد‘‘ ہونا چاہیے
خوبصورت تتلیوں نے کھول کر رَکھ دی کتاب
غنچوں کی جانب سے کچھ اِرشاد ہونا چاہیے
عشق کی گیتا کے پچھلے نسخوں میں یہ درج تھا
طالبانِ حسن کو فولاد ہونا چاہئیے
وصلِ شیریں تو خدا کی مرضی پر ہے منحصر
عاشقوں کو محنتی فرہاد ہونا چاہئیے
نامور عشاق کی نا کامی سے ثابت ہوا
عشق کے مضمون کا استاد ہونا چاہئیے
خون سے خط لکھ تو لوں پر پیار کے اظہار کا
راستہ آسان تر ایجاد ہونا چاہئیے
علم کا اَنبار راہِ عشق میں بے کار ہے
قیسؔ کو بس لیلیٰ کا گھر یاد ہونا چاہیے