مدیحہ گیلانی
محفلین
چاند کا سفر
اک فرشتہ عالم بالا سے لایا یہ خبر
شاعروں کا ایک جلسہ ہو رہا ہے چاند پر
روس، پاکستان، امریکہ، عرب ہندوستان
ہر جگہ سے شاعروں کے وفد جائیں گے وہاں
میں نے سوچا جلد کرنا چاہئے اس کام کو
چار چاند اس طرح لگ جائیں گے میرے نام کو
شاعروں کا نور دیدہ بن کے واپس آؤں گا
شاعر گردوں رسیدہ بن کے واپس آؤں گا
ہو گیا راضی میں اس جلسے میں شرکت کے لئے
ایم سی دینا پڑا کالج سے رخصت کے لئے
مانگ کر لایا السٹر اپنے اک استاد سے
کام چل جاتا ہے اکثر باہمی امداد سے
جمع اک راکٹ میں کچھ شاعر ہوئے آل انڈیا
میں بھی ان کے ساتھ سوئے ماہ و انجم چل دیا
میرا راکٹ اب خلا میں مائل پرواز تھا
دیدنی اس وقت حالِ شاعرِ جاں باز تھا
فکرِ دنیا تھی نہ مجھ کو دین کا کچھ ہوش تھا
میری نبضیں چھُٹ رہی تھیں اور میں خاموش تھا
میرا راکٹ جب فرازِ عرش پر چڑھنے لگا
ڈر کے مارے میں خود اپنی فاتحہ پڑھنے لگا
شاعروں کا قافلہ سطحِ قمر پر آ گیا
سامنے آنکھوں کے اک پُر نور منظر آ گیا
چاند کی مخلوق تھی بے حد خوش اندام و حسیں
لکھنئو کے "زُو" میں بھی ایسا کوئی ماڈل نہیں
ہم شبیہِ بوزنہ تھے یہ حسینانِ قمر
ڈارون صاحب کی تھیوری کا ثبوتِ معتبر
کانگریسی تھے کہ لیگی تھے کسی کو کیا خبر
یہ بھی اندازہ نہیں ہوتا تھا مادہ تھے کہ نر
شکل بندر کی، بدن انساں کا، حلیہ قیس کا
ہاتھ میں چھوٹا سا ڈبّا آکسیجن گیس کا
مانگ گنجی، آنکھ چھوٹی، ناک چپٹی، قد دراز
ایسی صنعت پر نہ کیوں ہو صانعِ قدرت کو ناز
ہاتھ بے ڈھب، پیٹ نا ہموار، چہرہ پُر سکون
دست قدرت نے بنایا تھا بشر کا کارٹون
گو پڑھے لکھے نہ تھے لیکن بڑے ہشیار تھے
تھے مکمل آدمی لیکن ذرا دُم دار تھے
ان کے کپڑے دیکھ کر ہوتا تھا کچھ ایسا قیاس
جیسے وہ پہنے ہوئے ہوں کوئی نورانی لباس
نور میں ڈوبا ہوا تھا ہر صغیر و ہر کبیر
جس کو دیکھو وہ نظر آتا ہے اک بدرِ منیر
فکر کیوں ہوتی انہیں روزی کمانے کے لئے
منّ و سلویٰ اُن کو مل جاتا تھا کھانے کے لئے
شکوۂ کم مائگی ان کے لئے تھا ناروا
خیر سے سب کچھ میسر تھا بجز آب و ہوا
آب امریکہ سے منگواتے تھے پینے کے لئے
روس والوں سے ہوا لیتے تھے جینے کے لئے
نصف حصہ سال کا سرما میں ہو جاتا تھا صرف
برف برف اور برف برف اور برف برف اور صرف برف
محفلِ شعر و سخن تھی منعقد اک غار میں
بادشاہانِ ادب پہنچے کوی دربار میں
بزم میں تشریف فرما تھے کچھ ایسے مسخرے
کر رہے تھے جو زمینی شاعروں پر تبصرے
بزم میں اک شور تھا دنیا کے شاعر آ گئے
جن کو جنت سے نکالا تھا یہاں پھر آ گئے
ایک بولا یہ ادب کی شامتِ اعمال ہیں
دوسرا بولا کہ یہ شاعر نہیں قوال ہیں
ایک بولا جیل سے آزاد ہو کر آئے ہیں
دوسرا بولا کسی سرکس کے جوکر آئے ہیں
ایک بولا عارضی ہے ان کے چہروں کی بہار
دوسرا بولا یہ ہیں بن مانسوں کے رشتہ دار
صدر نے اعلان فرمایا بہ اخلاقِ تمام
سب سے پہلے چاند کے شاعر سنائیں گے کلام
ہو گئے تیار سب مصرع اٹھانے کے لئے
چاند کے شاعر اٹھے غزلیں سنانے کے لئے
اک علامہ یہ بولے "میں ہوں ظرّافت نگار
ایک مطلع کر رہا ہوں نذر دل آور فگار"
شعر سنیے، چند دن کی زندگانی اور ہے
اس لئے ہم نے بھی اپنے دل میں ٹھانی اور ہے
داد یہ آئی کہ "اچھا شعر شاعر پڑھ گیا
حضرت غالبؔ کے مطلع سے یہ مطلع بڑھ گیا"
ان حسیں اشعار پر دادِ سخن ملتی رہی
قافیہ ہوتا رہا تنگ اور زمیں ہلتی رہی
رفتہ رفتہ بزم میں میرا بھی نمبر آ گیا
داد کی حسرت میں مسند پر سخنور آ گیا
میں نے جب مطلع سنایا حاضرینِ بزم کو
سب بیک آواز بولے "ہو ہو ہو ہو ہو ہو ہو
شاعری کی ہے کہ جھک مارا ہے خیر آگے بڑھو
باقی آئندہ سنانا شیخ جی مقطع پڑھو
چاند والوں کے مقابل کیا پڑھو گے بور بور
تم ہمارے شعر اڑا لیتے ہو، پکڑو چور چور"
صدر بولے "آپ پڑھیے، آپ سے مطلب نہیں
چند بیہودے ہیں اس بزمِ ادب میں، سب نہیں"
اپنی ذلت دیکھ کر کھانے لگا میں پیچ و تاب
صدرِ محفل کو دیا میں نے اکڑ کر یوں جواب
"کیا بتاؤں میں اہنسا کا پجاری ہوں جناب
ورنہ میں بھی اینٹ کا پتھر سے دے دیتا جواب
خیریت گزری کہ ہوں گاندھی کا شاگردِ رشید
ورنہ اک جوتا کسی کے سر پہ کر دیتا رسید"
اتفاقاً پھر کسی سامع سے میں ٹکرا گیا
یہ نظارہ دیکھتے ہی سر مرا چکرا گیا
بعد ازاں اک نقشِ مبہم ذہن میں تازہ ہوا
یعنی مجھ کو اپنی نادانی کا اندازہ ہوا
واقعہ یہ ہے میں اب تک ہوش سے بیگانہ تھا
"خواب تھا جو کچھ بھی دیکھا جو سنا افسانہ تھا"
دلاور فگار