چاند کی رویت کی ذمہ داری رویت ہلا ل کمیٹی کی ہے اور وہی ادا کرے گی: مفتی منیب

اے خان

محفلین
چاند کی رویت کی ذمہ داری کس کی تھی؟ آپ نے یہ چاند کہاں سے نکالا ہے؟ اور یہ معاملہ کس طور فکس کرایا ہے؟ کراچی کی مہم کیونکر کامیاب رہی؟ علامہ مفتی سید عمران کا اس میں کیا کردار رہا؟ اور، آپ کو بیڑیاں کب ڈالی جا رہی ہیں! وغیرہ وغیرہ!
بہت ہی مختصر قصہ ہے پھر کبھی بتائیں گے
 

آصف اثر

معطل
یہودیوں کے ملاء صرف اور صرف چاند دیکھنے کے قائیل تھے، کہ اس سے ان کے حلوے مانڈے چلتے تھے۔ یہ یہودیوں کے ملاء بالکل نہیں چاہتے تھے کہ کوئی دوسرا طریقہ اپنایا ٓجائے۔ یہ بات اس ویب سائٹ سے صاف ظاہر ہے۔
آپ یقینا کسی غلط فہمی کا شکار ہے یا قصدا ایسا کررہے ہیں۔ اگر یہودی ربی کسی دوسرے طریقے (مثلا شمسی کلینڈر) کے خلاف تھے تو اس کا اسلامی قمری کلینڈر سے کیا تعلق ہے۔ قمری کلینڈر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اتفاقِ رائے سے قائم کیا گیا تھا۔ لہذا آپ کی یہ بات خلط مبحث سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔

جس وقت رسول اکرم کے زمانے میں چاند کے حساب سے چلنے کی بات ہوئی تو اس وقت بہت ہی مشکل تھا کہ کوئی سائنٹیفک طریقہ ہو جس ٓسے سب کی سمجھ میں یہ آجائے کہ واقعی قمری کیلینڈر بنانا ممکن ہے۔ یہودیوں کے یہ ملاء ، رسول اکرم پر ٹھٹے لگاتے تھے اور اس طرح کے سوال کرتے تھے جو آج کے مسلمان ملاء کرتے ہیں۔ آج جب یہ ثابت ہے کہ چاند افٓق پر کس دن اور کس وقت طلوع ہوتا ہے تو اب ان پر کون ٹھٹے لگا رہا ہے۔ لیکن یہ مسلمانوں کے ملاء اپنی عادت بدلنے سے قاصر ہیں۔ ان یہودیوں کے ملاؤں کا یہی نکتہ نظر تھا کہ ہلال آنکھ کے بغیر دیکھنا ممکن ہی نہیں۔ یہ جھگڑا دیے گئے لننک پر موجود ہے۔ ٓیہی جھگڑا قرآن حکیم سے ثابت ہے۔ اور یہی جھگڑا ان نام نہاد علماء نے جاری رکھا ہوا ہے :)
پہلے عرض ہوچکا ہے کہ اس وقت چاند دیکھنے کا کوئی اور طریقہ ممکن ہی نہیں تھا، تو یہ دلیل دینا عبث ہے۔
جہاں تک رسول اللہ ﷺ کے دور میں قمری کلینڈر کو آنکھ سے دیکھنےکے حکم کا تعلق ہے تو جو ہلال طاقتور دوربینوں سے بھی نظر نہ آئے اسے آپ صرف آنکھ سے کیوں کر نتھی کررہے ہیں۔ کیا علماءِ کرام سائنٹفک آلات استعمال نہیں کرتے؟
لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اس حوالے سے آپ نے فراہم کردہ ربط کا مطالعہ نہیں کیا ہے کیوں کہ آپ کو اپنی تالمود سے فرصت نہیں۔

ٓٓ
سب سے پہلے تو بہت شکریہ یہ سوال پوچھنے کا۔ میں کیا کہتا ہوں بالکل نا مانئے، خلوص دل سے استدعا ہے۔ درج ذیل حدیث آپ کے سوال کا جواب ہے، یہ منطقی طور پر، قرآنی طور پر اور ایمانی طور پرہر طرح درست ثابت ہوتی ہے۔ لہذا اگر کوئی بھی روایت (روایت) قرآن کی آیات سے واضح طور پر ٹکراتی ہے تو پھر وہ روایت، حدیث رسول اکرم نہیں ہوسکتی۔ جب میں کسی روایت کے قرآن حکیم کے خلاف ہونے کے بارے میں لکھتا ہوں تو واضح آیات بھی فراہم کرتا ہوں۔ بہت ہی شکریہ۔

روایات کو قرآن پر پرکھیں، رسول اکرم کی حدیث مبارک:
×××××××××××××××××××
مفتی اعظم الممکۃ العربیۃ اسعودیۃ، شیخ‌ عبد العزیز بن عبداللہ بن باز کا خط

11 اپریل 1999
مطابق 24 ذی الحجہ، 1419 ھ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں اپنے دینی سرمائے کی حفاظت کے لئے عقاب کی طرح ہوشیار رہنا ہوگا۔ حیرت کی بات یہ نہیں کہ اسلام دشمن عناصر نے ہماری کتابوں کو ہدف بنا رکھا ہے۔ حیرت جب ہوتی اگر انہوں نے ایسا نہ کیا ہوتا۔ ہماری پناہ گا کیا ہے؟ القران۔

اپنی کتاب حضور رسالت مآب صلعم کے اس قول کریم سے شروع کیجئے۔
"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "

جب بھی کوئی حدیث آپ کو پیش کی جائے، میری (رسول صلعم) طرف سے، تو اس کی تصدیق قران کی روشنی (ضو علی کتاب اللہ) میں کرلیں۔ اگر یہ قرآن سے مطابقت رکھتی ہے تو قبول کرلیں اور اگر قرآن کے مخالف ہے تو اس کو ضایع دیں۔

مع السلامۃ ،

شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز
مفتی اعظم، مملکۃ العربیۃ السعودیۃ

انگریزی ترجمہ: احمد علی المّری، الریاض
نظرثانی: دکتور احمد اے خالد، جدہ
اردو ترجمہ : بریگیڈیر افواج پاکستان، ڈاکٹر شبیر احمد، سابق معالج خاص ملک فیصل- الباکستانی
××××××××××××××××××××
اس سے کس کو انکار ہے؟
تفصیل عبدالباسط صاحب دے چکے ہیں۔

یہ خیال آپ کے ذہن میں کیسے آیا کہ حدیث رسول اکرم کو نہیں ماننا ہے؟ کیا آپ حدیث رسول اکرم اور روایات میں فرق سمجھتی ہیں؟ جو روایت قرآن حکیم سے پرکھی جائے اور پوری اترے وہ حدیث مبارک نبوی ہے، اور جو روایت ، قرآں حکیم کے اصولوں کے خلاف پائی جائے وہ محض ایک روایت ہے۔ رسول اکرم کا قول ہے کہ جو روایت بھی پیش کی جائے اس کو قرآن حکیم پر پرکھو۔ تو کیا ہر رویات کو اس لئے قبول کرلی اجائے کہ کسی نے چھاپ دی ہے ان کتب میں ؟ میرا ایمان قرآن حکیم کے بعد چھاپی جانے والی کتب پر نہیں۔ ان کتب کو ہم قرآن حکیم پر پرکھیں گے ، اگر قرآن حکیم کے کی کسوٹی پر پور اترتی ہیں تو حدیث نبوی ہیں ، ان پر جو کچھ رسول عطا فرمائیں، کا اصول مانا جائے گا،
یہاں شرط جو بھی رسول عطا فرمائیں لے لو، ہے نا کہ جو بھی حجر العسقلانی عطا فرمائیں وہ بھی لے لو؟ نا بخاری میرا نبی ہے ، نا ہی کوئی دوسرا روایت لکھنے ولا، ان سب نے اپنی جگہ بہترین کام کیا ہے کہ یہ روایات ہم تک پہنچائی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ چھ لاکھ کے قریب روایات جو بخاری صاحب نے ریجیکٹ کردی تھیں ، ان میں سے کتنی احادیث نبوی تھیِں ؟ ان سب سے تو ہم محروم رہ گئے نا؟ جو لوگ چھ لاکھ روایات ریجیکٹ کردیں، ان کو کیا کہا جائے؟ پھر حجر العسقلانی نے تو فتح الباری صحیح البخاری لکھ کر ساری کہانی ہی بدل دی کہ ساری روایات کو اپنے اسلوب پر قلم بند کیا، وہ بھی سات سو سال بعد کہ "ان کا خیال ہے کہ رسول اکرم نے ایسے نہیں فرمایا ہوگا جیسا مروج ہے بلکہ ایسے فرمایا ہوگا ، جیسے میں (حجر العسقلانی) صاحب سمجھتے ہیں" اب س فتح الباری ، صحیح البخاری جو کہ آج رائج ہے، اس میں سارے اقوال حجر العسقلانی کے درست کئے ہوئے ہیں۔ جس کا اعتراف جناب نے خود کیا ہے۔ اس سے تمام روایات کو قرآن حکیم پر پرکھنے کی ضرورت اور بڑھ جاتی ہے کہ یہ سارے اقوال رسول اکرم کے نہیں ہیں ، بلکہ جیسا کہ حجر العسقلانی صاحب نے بہتر سمجھا ویسے ہیں۔ محروم کرنے والے اپنا کام کرگئے۔ اللہ تعالی نے صرف قرآن حکیم کی حفاظت کا ذمہ لیا تھا ۔ نا کہ بعد کے ان مصنفین کی تصانیف کا؟
کیا حدیث قرآن حکیم کے مخالف ہو سکتے ہے؟ ایسی روایت کو آپ کیا کہیں گے جو قرآن حکیم کے مخالف ہو؟ ہر باعلم عالم اس بات کا قائیل ہے کہ صحاح ستہ میں بھی بہت سی ضعیف روایات ہیں۔ درجنوں مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ جب بات سنبھلتی نہی ہے تو فرمادیا جاتا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ تو ان ضعیف اور مرفوع روایات کی کوئی فہرست ہے؟ یا آن ڈیمانڈ ، رویات کو ضعیف، یا مظبوط قرار دیا جاتا ہے؟؟ اگر نہیں تو 1400 سال میں بھی کیوں نہیں؟
افسوس ہے آپ کو روایتِ حدیث کے ممتاز نظام کا علم ہی نہیں۔ بہتر ہوگا آپ
روایتِ حدیث اور درایتِ حدیث پر مشتمل علماءِ اسلام کے وضع کردہ تاریخ کے منفرد ترین علم ”مصطلح الحدیث“ کا مطالعہ کریں، یہاں یہ سوال بھی برمحل رہے گا کہ اگر آپ کے پاس مذاہبِ متاخرین و متقدمین میں اس کا کوئی دوسرا ثانی مل سکے تو ضرور پیش کیجیے۔ لیکن یہ رسول اللہ ﷺ کی احادیثِ مبارکہ اور مدوِّنین حدیث کا امتیاز ہے کہ اس کی نظیر کسی بھی دوسرے مذہب میں موجود نہیں۔
تخریج واصول تخریج کے علم کےساتھ اصطلاحات حدیث سے بھی واقفیت پیدا کریں۔ تب ہی آپ کو علم ہوگا کہ احادیثِ مبارکہ کی کتب کا علمی اور عقلی پیمانہ کیا ہے۔ محض بغضِ معاویہ کا شکار ہوکر اپنا وقت ضائع نہ کریں۔
 
آخری تدوین:
Top