چاچا کالو اور مائی ماشو کی داستان محبت

یہ 1944 کی بات ہے جب جاپان کی تربیت یافتہ برما کی آزادی فوج نے برطانوی فورسز پر حملوں کی قیادت کی، اس موقع پر اتحادی افواج جس میں برطانوی، چینی اور امریکی فورسز شامل تھیں، جاپانی جھنڈے تلے طاقتوں کے خلاف لڑ رہی تھیں۔

برطانوی فوج میں شامل فوجیوں میں بیشتر کا تعلق ہندوستان سے تھا جن یں ایک بیس سالہ نوجوان مظفر خان بھی شامل تھے۔

ضلع چکوال سے تعلق رکھنے والا مظفر خان برما میں تعیناتی کے دوران ایک برمی لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوگیا۔

55376ea40f289.jpg

مظفر (چاچا کالو) کی چکوال میں ان کے گھر میں لی گئی تصویر— فوٹو دانیال شاہ
مظفر خان چالیس کی دہائی میں برطانوی فوج کے آرڈنینس کور میں بطور اہلکار بھرتی ہوا تھا اور اسے دیگر فوجیوں کے ہمراہ برما میں جاپانی فورسز سے لڑنے کے لیے بھیجا گیا۔

مظفر جس برمی لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا وہ بعد میں اس کی بیوی بن گئی اور وہ دونوں ضلع چکوال کے قریبی قصبے ڈھڈیال میں رہائش پذیر ہوگئے۔

ان کی محبت کی کہانی اور وہ کس طرح اس قصبے میں پہنچے یہ سب چکوال کے ارگرد کے علاقوں میں کافی مقبول ہے جو مظفر کے رشتے داروں، دوستوں اور اس جوڑے نے خود بیان کی۔

بانوے سال کی عمر میں اب مظفر خان کو اپنے علاقے میں چاچا کالو کے نام سے جانا جاتا ہے تو ان کی 84 سالہ بیوی عائشہ بی بی کو ماشو کہا جاتا ہے۔

چالیس کی دہائی کی یادیں وقت کے ساتھ ساتھ دھندلی پڑتی چلی گئی اور اس جوڑے کے لیے یہ حقیقت ہی باقی بچی کہ شادی کے بعد ان کی کوئی اولاد نہیں ہوئی جبکہ ماشو نے برما میں اپنا گھر بار شوہر کے ساتھ ہندوستان میں رہنے کے لیے قربان کردیا۔

55376ea630aa3.jpg

لاٹھیوں کی مدد لے کر چلنے والے جوڑے سے ہماری ملاقات ان کے گھر میں ہوئی جہاں سبز شلوار قمیض میں ملبوس ماشو کے جھریوں زدہ چہرے، نیلی آنکھیں اور نقوش میں واضح فرق بتاتا تھا کہ ان کا تعلق جنوب مشرقی ایشیائی خطے سے ہے، جبکہ سادہ سفید شلوار قمیض پہنے چاچا کالو بیٹھ کر ہمیں تک رہے تھے۔

ماشو نے بتایا " جب ہم لوگ یہاں آئے تو میرے ملک میں جنگ جاری تھی"۔

چاچا کالو نے کہانی بیان کرتے ہوئے کہا " دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی برما میں لڑ رہے تھے اور مجھے وہاں ان سے مقابلے کے ایک مشن کے لیے بھیجا گیا"۔

ماشو کو یاد ہے کہ وہ وسطی برما کے ایک شہر میکیٹلا میں پلی بڑھی " میں ایک بدھ لڑکی تھی اور عبادت کے لیے اپنی ماں کے ہمراہ بدھ مندر جاتی رہتی تھی "۔

55376eaca450a.jpg

اسی کمرے میں چاچا کالو کے بہن بھائیوں کے بچوں کے بچے اپنے بزرگوں کی پرااثر داستان سنانے لگے " چاچا کالو اس زمانے میں جوان تھے اور وجیہہ شخصیت کے مالک تھے، انہیں برما میں ایک بیرک میں تعینات کیا گیا جہاں ایک نوجوان برمی لڑکی جس کے بال لمبے اور آنکھیں نیلی تھیں، روزانہ فوجیوں کو خوراک فراہم کرتی تھی اور چاچا اس کی محبت میں گرفتار ہوگئے"۔

چاچا کالو نے اس موقع پر اپنی یادوں کو ان الفاظ میں دہرایا " وہ لڑکی جنگ کے نتیجے میں اپنے خاندان کو کھو چکی تھی اور میں اسے اپنے ساتھ یہاں لایا اور شادی کرلی "۔

اس بزرگ جوڑے کے رشتے کی کیمسٹری بہت خوبصورت ہے۔

بڑھتی عمر کے باعث چاچا کالو کو سننے میں مسائل کا سامنا ہے اور ان کے کانوں میں آلہ سماعت لگا ہوا ہے جبکہ ماشو بنیائی کی کمزوری کا شکار ہیں۔ اپنے شوہر سے بات چیت کے لیے انہیں کافی بلند آواز میں بات چیت کرنا پڑتی ہے جبکہ بڑھاپے کی مشکلات کے باوجود وہ اپنے محبوب شوہر کے لیے چائے خود بنانا پسند کرتی ہیں۔

انہوں نے ہنستے ہوئے بتایا " میرا اپنا باورچی خانہ ہے اور وہ صرف وہی چائے پسند کرتے ہیں جو میں بناتی ہوں، انہوں نے مجھے ایک گھر اور خاندان دیا"۔

کمرے کے اندر موجود افراد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا " یہ میرا خاندان ہے"۔

55376eb09cad1.jpg

دلچسپ بات یہ ہے کہ ماشو اب روانی سے پنجابی بولتی ہیں جبکہ برما سے اب ان کا کوئی تعلق نہیں رہ گیا اور وہ اپنے شوہر مظفر کے ہمراہ ایک چھوٹے سے کچھے گھر میں رہ رہی ہیں اور واضح ہے کہ ان کے رشتے دار اور پڑوسی اس جوڑے کی ہر طرح سے معاونت کرتے ہیں۔

ماشو نے یہاں آنے کے بعد اسلام قبول کرلیا تھا اور انہیں تو اب اپنا وہ نام یاد بھی نہیں جو برما میں ستر سال پہلے ان کا تھا، عائشہ بی بی کا نام بھی مظفر سے شادی کے موقع پر رکھا گیا تھاجس کے بعد ارگرد کے بچوں نے انہیں ماں عاشو کہنا شروع کردیا جو کہ وقت گزرنے کے ساتھ مختصر ہوکر ماشو کی شکل اختیار کرگیا۔

55376eb4655a7.jpg

چاچا کالو نے حج کر رکھا ہے اور ماشو کا بھی یہ خوب ہے مگر ان کی زندگی کی گزر بسر اس پنشن سے ہورہی ہے جو مظفر کو کامن ویلتھ ایکس سروسز ایسوسی ایشن آف پاکستان سے سابق برطانوی فوجی ہونے کی وجہ سے مل رہی ہے۔

ماشو برمی بدھ سے برطانیہ کے زیرقبضہ ہندوستان میں پنجابی مسلمان بنیں اور بعد میں پاکستانی بن گی مگر ان کا کہنا ہے کہ جب تک مظفر اوروہ اس جگہ میں رہ رہی ہیں ان کے لیے شناخت کا سوال کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔

55376ea90434a.jpg

اس جوڑے سے ملاقات کے بعد اب یہ خبر سامنے آئی ہے کہ گزشتہ ہفتے چاچا کالو کا انتقال ہوگیا اور وہ ماشو کو اپنے رشتے داروں و پڑوسیوں کے ساتھ تنہا چھوڑ گئے ہیں۔
ربط
http://www.dawnnews.tv/news/1020224
 
اس کے لئے ہندو قوم پرستوں سے رابطہ کرنا پڑے گا کیونکہ "لو جہاد" کو رونا انہوں نے ہی شروع کیا تھا۔ مزید تفصیل کے لئے یہ ربط ملاحظہ کیا جائے۔
 
Top