کاشف اکرم وارثی
محفلین
چاھت کو ھم نے اُس کی نشانی سمجھ لیا
وہ تو سراب تھا جسے پانی سمجھ لیا
اُس نے کہا کہ سارا جہاں ھے مِرا وجود
اور ھم نے اِس جہان کو فانی سمجھ لیا
گُزری جو دل پہ وہ بھی قیامت تھی باخُدا
اور تُم نے اِس کو ایک کہانی سمجھ لیا
خُوشبو کو ھم نے جار میں قیدی بنا لیا
سانپوں نے اُس کو رات کی رانی سمجھ لیا
سامان موت کا بھی وہ لائی ھے اپنے ساتھ
پُھولوں نے جس کو اپنی جوانی سمجھ لیا
اُس کا مزاج جھیل کی صورت ، پڑا رہا
دریا کی ،جس کو ھم نے روانی سمجھ لیا
اُس نے ابھی ابھی تو کہا تھا ھمیں ”بتول“
اور ھم نے اِس کو یاد پُرانی سمجھ لیا
فاخرہ بتول