محمد بلال اعظم
لائبریرین
چاہت کے صبح و شام محبت کے رات دِن
’’دِل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دِن‘‘
وہ شوقِ بے پناہ میں الفاظ کی تلاش
اظہار کی زبان میں لکنت کے رات دِن
وہ ابتدائے عشق وہ آغازِ شاعری
وہ دشتِ جاں میں پہلی مسافت کے رات دِن
سودائے آذری میں ہوئے صنم گری
وہ بت پرستیوں میں عبادت کے رات دِن
اِک سادہ دِل ، دیارِ کرشمہ گراں میں گم
اِک قریۂ طلسم میں حیرت کے رات دِن
لب ہائے نارسیدہ کی لرزش سے جاں بلب
صہبائے ناچشیدہ کی لذت کے رات دِن
روئے نگار و چشمِ غزالیں کے تذکرے
گیسوئے یار و حرف و حکایت کے رات دِن
ناکردہ کاریوں پہ بھی بدنامیوں کا شور
اختر شماریوں پہ بھی تہمت کے رات دِن
سوداگرانِ منبر و مکتب سے رو کشی
جاں دادگانِ دانش و حکمت کے رات دِن
اہلِ قبا و اہلِ ریا سے گریز پا
وہ واعظانِ شہر سے وحشت کے رات دِن
میر و انیس و غالب و اقبال سے الگ
راشد ، ندیم ، فیض سے رغبت کے رات دِن
فردوسی و نظیری و حافظ کے ساتھ ساتھ
بیدل ، غنی ، کلیم سے بیعت کے رات دِن
شیلے کا سحر ، کیٹس کا دُکھ ،بائرن کی دھج
ان کافرانِ عشق سے نسبت کے رات دِن
تشکیک و ملحدانہ رویے کے باوجود
رومی سے والہانہ عقیدت کے رات دِن
جیسے مئے سخن سے صراحی بھری ہوئی
زورِ بیان و ُحسنِ طبیعت کے رات دِن
یاروں سے شاعرانہ حوالے سے چشمکیں
غیروں سے عاشقانہ رقابت کے رات دِن
شعری سفر میں بعض بزرگوں سے اختلاف
پیرانِ میکدہ سے بغاوت کے رات دِن
رکھ کر کتابِ عقل کو نسیاں کے طاق پر
وہ عاشقی میں دِل کی حکومت کے رات دِن
ہر روز ، روزِ ابر تھا ہر رات چاند رات
آزاد زندگی تھی ، فراغت کے رات دِن
وہ صبح و شام دربدری ، ہم سنوں کے ساتھ
آوارگی و سیر و سیاحت کے رات دِن
اِک محشرِ خیال کے ہجراں میں کانٹا
تنہائی کے عذاب ، قیامت کے رات دِن
اک لعبتِ جمال کو ہر وقت سوچنا
اور سوچتے ہی رہنے کی عادت کے رات دِن
اِک رازدارِ خاص کو ہر وقت ڈھونڈنا
بے اعتباریوں میں ضرورت کے رات دِن
وہ ہر کسی سے اپنا ہی احوال پوچھنا
اپنے سے بھی تجاہل و غفلت کے رات دِن
بے وجہ اپنے آپ کو ہر وقت کوسنا
بے سود ہر کسی سے شکایت کے رات دِن
رُسوائیوں کی بات تھی رُسوائیاں ہوئیں
رُسوائیوں کی عمر میں شہرت کے رات دِن
اِک دُشمنِ وفا کو بھلانے کے واسطے
چارہ گروں کے پند و نصیحت کے رات دِن
پہلے بھی جاں گُسل تھے مگر اس قدر نہ تھے
اِک شہرِ بے اَماں میں سکونت کے رات دِن
اس دولتِ ہنر پہ بھی آزارِ مفلسی
اس روشنیٔ طبع پہ ظلمت کے رات دِن
پھر یہ ہوا کہ شیوئہ دِل ترک کر دیا
اور تج دیئے تھے ہم نے محبت کے رات دِن
ہر آرزو نے جامۂ حسرت پہن لیا
پھر ہم تھے اور گوشۂ عزلت کے رات دِن
ناداں ہیں وہ کہ جن کو ہے گم نامیوں کا رنج
ہم کو تو راس آئے نہ شہرت کے رات دِن
فکرِ معاش ، شہر بدر کر گئی ہمیں
پھر ہم تھے اور قلم کی مشقت کے رات دِن
’’خونِ جگر ودیعتِ مژگانِ یار تھا‘‘
اور مدعی تھے صنعت و حرفت کے رات دِن
کیا کیا ہمیں نہ عشق سے شرمندگی ہوئی
کیا کیا نہ ہم پہ گزرے ندامت کے رات دِن
آکاس بیل پی گئی اِک سرو کا لہو
آسیب کھا گیا کسی قامت کے رات دِن
کاٹی ہے ایک عمر اسی روزگار میں
برسوں پہ تھے محیط ، اذیت کے رات دِن
ساماں کہاں کہ یار کو مہماں بلایئے
اِمکاں کہاں کہ دیکھئے عشرت کے رات دِن
پھرتے تھے میر خوار کوئی پوچھتا نہ تھا
قسمت میں جب تلک تھے قناعت کے رات دِن
سو یہ بھی ایک عہدِ زیاں تھا ، گزر گیا
کٹ ہی گئے ہیں جبرِ مشیت کے رات دِن
نوواردانِ شہرِ تمنا کو کیا خبر
ہم ساکنانِ کوئے ملامت کے رات دِن
(غزل بہانہ کروں)