چھوٹاغالبؔ
لائبریرین
جمعہ کے خطبے میں مولانا صاحب ارشاد فرما رہے تھے، کہ کسی بھی جائز یا نیک کام کرتے وقت اگر یہ سوچ لیا جائے کہ سنت رسول ﷺ کی پیروی کی نیت یا غرض سے کر رہا ہوں تو اللہ تعالیٰ اس کام کرنے کا بھی ثواب عطا فرماتا ہے۔میرے اندر کا لالچی کتااس بات پر دم ہلانے لگا کہ وارے ہو گئے نیارے ، یہ تو آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام والا معاملہ بنایا جا سکتا ہے۔لیکن مشکل یہ تھی کہ بھلا ایک خاکہ لکھنے میں کہاں سے سنت کی پیروی کی گنجائش نکالی جا سکتی ہے ۔ آپ بھی حیران تو ہو رہے ہونگے ، لیکن جناب من لائیے ہاتھ!اورداد دیجئے کہ ہم نے یہ جوئے شیر بھی بہا ہی ڈالی، ممکن ہے کہ کچھ لوگ اس بات پر چیں بجبیں ہوں اور شاید لگے ہاتھوں مجھ پر کوئی فتویٰ بھی جاری ہو جائے، لیکن کس کم بخت کو پرواہ ہے، کیا خوب کہا ہے کسی میرے جیسے نے "جب پیار کیا تو ڈرنا کیا"
ذرا تاریخ میں پیچھے کو چلیے ،لیکن اتنا زیادہ بھی نہیں کہ قبل مسیح کا زمانہ ذہن میں سوچ بیٹھیں ، بس ذرا غزوہ خیبر تک ہی جانا ہے۔جب اللہ کے پیارے رسول ﷺ اپنے پیارےجانثارصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرما رہے تھے۔کل میں جھنڈا اس کے ہاتھ میں دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو محبوب رکھتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول ﷺ بھی اسے محبوب رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔الخ (الفاظ کی کمی بیشی پر پیشگی معذرت)
پس تو صاحبو ! میں یہ خاکہ اس گلِ رعنا کا لکھ رہا ہوں ، جسے قبلہ بڑے غالبؔ اور چھوٹا غالبؔ محبوب رکھتے ہیں ، اور یقیناً وہ بھی بڑے غالبؔ کو تو محبوب رکھتے ہی ہیں لیکن چھوٹے غالبؔ کو بھی بہت عزیز رکھتے ہیں۔
مان گئے بھئی مان گئے آپ کی ذہانت کو، پہچان لیا نا؟ لیکن کچھ لوگوں کو ابھی بھی سمجھ نہیں آ رہی ، چلیں ان کی بھی مشکل تھوڑا اور آسان کرتے ہیں ، حالانکہ "بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا"
آپ ذرا ذہن دوڑائیے ، اور سوچنے کی کوشش کیجئے کہ آپ ایک ایسی شخصیت کو جانتے ہیں جو "آنچہ ہمہ خوباں ،ہی اکیلا داری" پر کچھ نہ کچھ پورا اترتا ہے، جس سے مل کر ، بات کر کے ، خواہ مخواہ مرعوب ہوجانے کو جی چاہے، اتنی خوبیاں اور اوصاف یکجا ہیں کہ اول انسان ماننے کو جی نہیں کرتا ، لیکن اگر مانیں بھی تو آرڈر پر تیار شدہ انسان ہی مانیں۔
ان کی خوبیوں پر میں کیا لکھوں آپ ذرا یادگارِ غالبؔ کھولیں ، اس صفحے پر چلیں ، جہاں شہ سرخی ہے "مرزا غالبؔ کےاخلاق و خصائل" بس جناب سمجھ لیں کہ اس معاملے میں انیس بیس کا فرق ہے، ان میں اور قبلہ غالبؔ میں۔ہو سکتا ہے کچھ لوگ اٹھارہ ، بیس پر اصرار کریں ، مگر جو میں نے کہنا تھا وہ کہہ لیا۔
شیخ سعدی ؒ فرماتے ہیں :۔ "فقیر اگر عاجزی کرتا ہے تو یہ خوبی نہیں اس کی عادت ہے ، لیکن اگر بادشاہ انکساری سے کام لے تو یہ بہت بڑی نیکی ہے" (کریما سعدیؒ)
جی جناب ! بالکل ٹھیک سمجھے، حضرت اس معاملے میں بھی نیکیاں سمیٹنے میں بڑے مستعد ہیں،
زندگی میں بہت سے لوگ ملتے ہیں کہ چاہے الف بے بھی پوری نہیں آتی مگر گردن 123 ڈگری کے زاویے پر اوراپنے تئیں خود کو علم و فضل کا ایفل ٹاور سمجھنے والے،
لیکن انہیں مل کر آپ کے ذہن میں انار کے درخت کی شاخ ذہن میں آئے گی ، جو پھلوں کے بوجھ سے اتنی جھکی ہوئی تھی کہ زمین کو چھو رہی تھی۔
جن لوگوں کو میری یہ لمبی چوڑی تشبیہات اور استعارات سے الجھن ہو رہی ہے وہ بے شک انہیں "ادبی گوگل" کہہ لیں اپنی آسانی کیلئے۔
تاریخ اسلام سے دلچسپی رکھنے والے یقیناً جانتے ہیں کہ حضرت جبریل علیہ السلام (انسانی پیکر میں )کس صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صورت میں تشریف لایا کرتے تھے۔ بس تو پھر سمجھ لیجئے کہ اگر کبھی ادبیات کے انسائیکلو پیڈیا کو انسانی صورت میں آنا پڑے تو وہ کس کی صورت میں آئے گا۔
یہ ہوئی نا بات، بالکل ٹھیک جواب ، داد ہے جناب آپ کی ذہانت کو، آپ بالکل ٹھیک سمجھے۔
نرگس ہزاروں سال روئے تب جا کے دیدہ ور پیدا ہوتا ہے ، لیکن سیالکوٹ یقیناً کوئی پہنچا ہوا شہر ہے کہ صرف سو سال اپنی بے نوری پہ رویا اور اللہ نے اس میں ایک اور دیدہ ور پیدا کر دیا۔ میرے ذہنی توازن پہ شک کرنے کی کوئی ضرورت نہیں جناب من! یقین نہیں آ رہا تو حساب کر کے دیکھ لیں
آپ حساب کتاب کر لیں ، اور مجھے دیجئے اجازت اس شعر کے ساتھ (ہمیشہ کی طرح قبلہ استاد جی سے مستعار لیا ہوا)
لایا ہے کہہ کے یہ غزل ، شائبہ ریا سے دور
کر کے دل و زبان کو، غالب خاکسار ایک