Nadir Khan Sargiroh
محفلین
طنز و مزاح
چاہ ِ چائے
(نادر خان سَرگِروہ ۔۔۔ سعودی عرب )
ایک شام ۔۔۔ چائے پر ہمارے ایک دوست کالی چائے کی شان میں قصیدے پڑھنے لگے کہ اِس کے پینے سے ’’ یہ ‘‘ فائدے ہوتے ہیں اور ’’ وہ‘‘ نقصانات نہیں ہوتے ۔ اُنھوں نے آسٹریلیا میں کی گئی ایک ریسرچ کا حوالہ بھی دیا۔جس کے مطابق، دن میں کم ازکم تین پیالی کالی چائے پینے کا مفت مشورہ دیا گیا ہے۔ وہ جس انداز میں کالی چائے کی نہر پر تعریفوں کے پُل باندھ رہے تھے ، ہمیں شک گزرنے لگاکہ کہیں وہ دودھ کے جلے نہ ہوں۔ وجہ جو بھی ہو، ہمیں اِن کی چائے میں کچھ کالا نظر آیا۔ اب تک تو ہم سبز چائے کے متعلق سنتے آئے تھے کہ بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کو کنٹرول کرتی ہے ۔ ہارٹ اَٹیک کے خطرے سے محفوظ رکھتی ہے۔ لیکن یہ کالی چائے کی تعریف ؟ ۔۔۔۔ حلق سے نہیں اترتی ۔
بڑے شہروں اور اُس کے اَطراف میں رہنے والے لوگ جب تک چائے سے اپنا منہ نہ جلالیں، اُن کی آنکھیں نہیں کھلتی۔ بلکہ بعضوں کو تو ہر گھنٹے آنکھیں کھولنے کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ وہ رات گئے ۔ ۔ ۔ آنکھیں بند ہونے تک چائے کی چسکیاں لیتے رہتے ہیں۔
بعض لوگ ۔ ۔ ۔ بیڈ ٹی (Bed tea) کے بھی عادی ہوتے ہیں ۔ ہمارے دوست پُر جوش پوری اپنی اصطلاح میں اِسے ویری بیڈ ٹی (Very bad tea ) کہتے ہیں۔ اِن بیڈ (ٹی ) بائز کا بس چلے تو خوابوں میں بھی چائے کا شوق پُورا کریں۔ یعنی آنکھ کھُلنے سے پہلے ۔۔۔ ڈریم ٹی (Dream tea) ۔ جب ایسے لوگوں سے کہا جائے کہ جناب ! پہلے منہ تو دھو لیں ۔ تو کہتے ہیں ، ’’ شیر کبھی منہ نہیں دھوتے ۔‘‘ ہم کہتے ہیں ، شیرتو کیا؟ ۔۔۔ گدھے بھی منہ نہیں دھوتے۔
چائے اور دودھ کا ۔۔۔ کم از کم بر صغیر میں چولی دامن کا ساتھ ہے ۔( چولی دامن جیسی مثال برّ صغیر کے علاوہ اور کہاں) ۔ بھلے ہی دودھ میں دودھ نہ ہو، لیکن چائے میں دودھ ہونا چاہیے ۔ دودھ کے ساتھ چائے پکانے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اُس میں چائے کا انتظار طویل ہو جاتا ہے۔ یعنی چائے کے مزے میں انتظار کا مزہ بھی شامل ہو جاتا ہے۔
چائے اور پانی کابھی اٹوٹ بندھن ہے۔پانی کے بغیر چائے ۔۔۔ چائے نہیں۔ اور ’چائے پانی ‘ کے بغیرتو دُنیا کے کام بھی آگے نہیں بڑھتے۔
چائے اور Cookery ( کھانا پکانے کی ترکیب ) کا بھی عجیب تعلق ہے۔ تیکھا ہو کہ میٹھا ،کوئی پکوان ایسا نہیں ہوتا، جس میں چائے کے چمچے نہیں ڈالے جاتے ۔ وہ اس طر ح کہ :
لال مرچ ۔۔۔۔۔۔۔ ایک چائے کا چمچہ
زیرہ پاؤڈر ۔۔۔۔۔۔ دو چائے کے چمچے
کھانے کا سوڈا ۔۔۔۔ ایک چائے کا چمچہ
صُبح کی چائے اور اخبار میں بھی کھٹا میٹھا رشتہ ہے۔ اخبار کے ساتھ چائے پینے کا یہ فائدہ ہے کہ اگر چائے ضرورت سے زیادہ میٹھی ہو تو اخبار اُس کی مٹھاس کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ چائے سے آنکھ کھُلے نہ کھُلے اخبار کی سرخیوں سے کھل جاتی ہے۔ کبھی کبھار، اخبارکھولتے ہی افسوس ہوتا ہے کہ میں نے آنکھیں کھولی ہی کیوں؟
بوسٹن کا ذکر آتا ہے تو وہاں کی ٹی پارٹی کی یاد ذہن میں تازہ ہوجاتی ہے ۔ جب ہزاروں کالونِسٹ نے برطانوی حکومت کی نا انصافی پر مبنی ٹیکس پالیسی کے خلاف احتجاجاََ تین جہازوں پر لدے چائے کے بکسے ،بوسٹن کی بندرگاہ پر اُلٹ دیے تھے۔ یہ واقعہ امریکا کی انقلابی لہرمیں ایک ٹرننگ پائنٹ ثابت ہوا۔ بوسٹن کے واقعہ پر ہمارے ہمزاد پُرجوش پُوری کہتے ہیں، ’’ یوں بھی چائے کو ’گھوم پھِر کر ‘ سمند ر میں ہی جانا تھا۔‘‘
ٹیسٹ کرکٹ میں بھی چائے دوہرا کردار اَدا کرتی ہے۔ اکثر۔۔۔ ٹی بریک کے بعد کا سیشن(Session ) بڑا غیر یقینی ہوتا ہے۔ شام کو چائے کے بریک سےَ لوٹنے کے بعد فیلڈر چُست اور بلّے باز سُست لگنے لگتے ہیں۔ وہ اگلے دن کے لیے وکٹ بچانے کی کوشش میں کوئی کوشش کرتے نظر نہیں آتے۔ جب کہ فیلڈنگ سائڈ ۔۔۔ اٹیکنگ( Attacking) اور ایگریسیو (Agressive) ہوجاتی ہے۔ شاید انتظامیہ ، فریقین کو دومختلف اقسام کی چائے پلاتی ہے۔ یعنی فیلڈروں کو چائے ’ برائے غضب ‘ اور بلے بازوں کو ۔۔۔ چائے برائے ادب ۔کہتے ہیں کہ سب سے بہترین چائے ، سطح سمندر سے تین ہزار فٹ کی بلندی پر اُگتی ہے۔ چائے کی کاشت کے لیے اِنتہائی سرد آب ہوا کی ضرورت ہوتی ۔ کتنی عجیب بات ہے ! برودت میں وجود پانے والی چیز ۔۔۔۔ وجود ۔۔۔۔ کو گرمانے کے کام آتی ہے ۔ بھارت ، چین اور سری لنکا کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ پوری دنیا کی چائے سے تواضع کرتے ہیں۔ بلکہ مغربی ممالک کو اِتنا چُست رکھتے ہیں کہ وہ ہمہ وقت ’ اُن کے ‘ افعال و اعمال پر کڑی نظر رکھ سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نادر خان سرگروہ
اپریل دو ہزار تیرہ