علی فاروقی
محفلین
تیری راہ پر ہم نے کلیاں بکھیری تھیں،تارے
سجائے تھے کیا کچھ کیا تھا
جو برسوں سے چاک و دریدہ چلا آرہا تھا ،وہ
اپنا گریباں سِیا تھا
نئے پھول مالی سے منگوائے تھے ،بام و در پر نیا
رنگ و روغن کیا تھا
کتابیں سلیقے سے رکھ دیں تھی،بوتل ہٹا دی
تھی گھر میں چراغاں کیا تھا
اگر عِلم ہوتا کہ تو آج کی شب نہ آئے گی، تو
حسبِ معمول رہتے،
ترے غم کی مدھم سی آتش میں جلتے،مگر تجھ
سے دل کی حکایت نہ کہتے
نہ کہتے کہ اب اک رگ سے۔اک ایک
مُوئے بدن سے دھواں اُٹھ رہا ہے
جو ٹھیرا تھا اپنی خودی کی سرائے میںوہ ضبط
کا کارواں اُٹھ رہا ہے
تجھے آج تک خط نہ لکھا تھا اور آج بھی ہی نہ
لکھتے کہ ہم مر رہے ہیں
نگاہوں سے سب کچھ بتاتے ،اشارے سے کہتے
کہ دل کو لہو کر رہے ہیں
مگر تیری غفلت نے{شاید تیرے شیوہءِ امتحاں نے}
یہ منزل دکھا دی
کہ تھم تھم کے آنسو نکلتے تھے پہلے،مگر آج تو
دل کی ندّی چڑھا دی
اُٹھے تھے کہ جشنِ چراغاں منائیں،مگر دل کے
سارے دیئے سو گئے ہیں
چلے تھے کہ دنیا کو رستہ دکھائیں،اور اب
جیسے جنگل میں خود کھو گئے ہیں
سجائے تھے کیا کچھ کیا تھا
جو برسوں سے چاک و دریدہ چلا آرہا تھا ،وہ
اپنا گریباں سِیا تھا
نئے پھول مالی سے منگوائے تھے ،بام و در پر نیا
رنگ و روغن کیا تھا
کتابیں سلیقے سے رکھ دیں تھی،بوتل ہٹا دی
تھی گھر میں چراغاں کیا تھا
اگر عِلم ہوتا کہ تو آج کی شب نہ آئے گی، تو
حسبِ معمول رہتے،
ترے غم کی مدھم سی آتش میں جلتے،مگر تجھ
سے دل کی حکایت نہ کہتے
نہ کہتے کہ اب اک رگ سے۔اک ایک
مُوئے بدن سے دھواں اُٹھ رہا ہے
جو ٹھیرا تھا اپنی خودی کی سرائے میںوہ ضبط
کا کارواں اُٹھ رہا ہے
تجھے آج تک خط نہ لکھا تھا اور آج بھی ہی نہ
لکھتے کہ ہم مر رہے ہیں
نگاہوں سے سب کچھ بتاتے ،اشارے سے کہتے
کہ دل کو لہو کر رہے ہیں
مگر تیری غفلت نے{شاید تیرے شیوہءِ امتحاں نے}
یہ منزل دکھا دی
کہ تھم تھم کے آنسو نکلتے تھے پہلے،مگر آج تو
دل کی ندّی چڑھا دی
اُٹھے تھے کہ جشنِ چراغاں منائیں،مگر دل کے
سارے دیئے سو گئے ہیں
چلے تھے کہ دنیا کو رستہ دکھائیں،اور اب
جیسے جنگل میں خود کھو گئے ہیں