چراغوں کو بجھایا جا رہا ہے : غزل براہ اصلاح

اشرف علی

محفلین
غزل ( اصلاح کے بعد )

نہ اب خود ان سے آیا جا رہا ہے
نہ مجھ کو ہی بلایا جا رہا ہے

خوشی کا دل دکھایا جا رہا ہے
غموں سے دل لگایا جا رہا ہے

دکھانے کے لیے اپنا نشانہ
پرندوں کو اڑایا جا رہا ہے

کہیں بے ہوش ہو جائے نہ کوئی
کہ پھر پردہ اٹھایا جا رہا ہے

ہماری ہمت اتنی بڑھ رہی ہے
ہمیں جتنا ڈرایا جا رہا ہے

اگر وہ واقعی ہے خوب صورت
اسے پھر کیوں سجایا جا رہا ہے

ہمیں پھر سے رلانے کے لیے کیا
ہمیں پھر سے ہنسایا جا رہا ہے

جو ملزم تک نہ تھا ، اس شخص ہی کو
یہاں مجرم بتایا جا رہا ہے

وہ بس مجھ پر عیاں ہوگا ، تبھی تو
وہ بس مجھ سے چھپایا جا رہا ہے

اِدھر خطرہ ہے میری جاں کو اشرف
اُدھر پہرہ لگایا جا رہا ہے
غزل کی پسندیدگی کے لیے میں تہہِ دل سے آپ کا شکر گزار ہوں سر
اللّٰہ آپ کو حصارِ خیر میں رکھے ، آمین _
 
Top