نوید صادق
محفلین
غزل
چراغِ طاقِ ابد جل رہا ہے میرے ساتھ
مرے سوا بھی کوئی چل رہا ہے میرے ساتھ
جمی ہے ساعتِ آئندہ پر نگاہ مری
کہ میرا عصر بھی اب ڈھل رہا ہے میرے ساتھ
میں اپنی قید سے آزاد ہو نہیں پایا
مرے وجود کا مقتل رہا ہے میرے ساتھ
خبر کسی کو نہیں ہے کہ میرا ماضی بھی
اسیرِ خانہء جدول رہا ہے میرے ساتھ
میں بے سبب کوئی الزام کیوں دھروں اُس پر
نہیں ہے آج مگر کل رہا ہے میرے ساتھ
نہیں ہے میرے مقدر میں تخلیہ ساجد
کوئی ازل سے مسلسل رہا ہے میرے ساتھ
(غلام حسین ساجد)
چراغِ طاقِ ابد جل رہا ہے میرے ساتھ
مرے سوا بھی کوئی چل رہا ہے میرے ساتھ
جمی ہے ساعتِ آئندہ پر نگاہ مری
کہ میرا عصر بھی اب ڈھل رہا ہے میرے ساتھ
میں اپنی قید سے آزاد ہو نہیں پایا
مرے وجود کا مقتل رہا ہے میرے ساتھ
خبر کسی کو نہیں ہے کہ میرا ماضی بھی
اسیرِ خانہء جدول رہا ہے میرے ساتھ
میں بے سبب کوئی الزام کیوں دھروں اُس پر
نہیں ہے آج مگر کل رہا ہے میرے ساتھ
نہیں ہے میرے مقدر میں تخلیہ ساجد
کوئی ازل سے مسلسل رہا ہے میرے ساتھ
(غلام حسین ساجد)