طارق شاہ
محفلین
غزل
محبّت کِس قدر یاس آفریں معلوُم ہوتی ہے
تِرے ہونٹوں کی ہر جُنْبش نہیں معلوُم ہوتی ہے
یہ کِس کے آستاں پر مجھ کو ذوقِ سجدہ لے آیا
کہ آج اپنی جبِیں، اپنی جبِیں معلوُم ہوتی ہے
محبّت تیرے جلوے کتنے رنگارنگ جلوے ہیں
کہِیں محسُوس ہوتی ہے، کہِیں معلوُم ہوتی ہے
جوانی مِٹ گئی، لیکن خَلِش دردِ محبّت کی !
جہاں معلوُم ہوتی تھی، وہیں معلوُم ہوتی ہے
اُمیدِ وصل نے دھوکے دِیے ہیں اِس قدر حسرت !
کہ اُس کافر کی ہاں بھی، اب نہیں معلوُم ہوتی ہے
چراغ حَسَن حسرت