سید شہزاد ناصر
محفلین
جموں و کشمیر کی ریاست پونچھ سے نکل کے چراغ حسن حسرت نے شملے کا رخ کیا تھا اور وہاں بشپ کارٹن سکول میں فارسی اور اردو کے استاد مقرر ہوئے، ان ہی دنوں مولانا ابوالکلام آزاد، ایڈورڈ گنج میں ایک تقریر کے سلسلے میں شملہ تشریف لائے توان سے حسرت صاحب کی ملاقات ہو گئی ، حسرت صاحب اس ملاقات کو یوں بیان فرماتے ہیں :
’’ ملنے والوں میں ایک میں ہی نہ تھا بہت سے لوگوں کا ایک وفد ساتھاجس میں اسلامیہ ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر سے لے کر ایڈورڈ گنج کے تنبولی تک سب شامل تھے، میں بھی گھس بیٹھ کر ان میں شامل ہو گیا-لوگ سوال کر رہے تھے اور وہ جواب دے رہے تھے- اس وقت ان کی صورت شکل کے عام انداز سے ان پر عقاب کادھوکا ہوتا تھا لیکن ایسا عقاب نہیں جو محض شکاریوں کا بازیچہ ہو بلکہ ایسا عقاب جو سنگ خارا کی چٹانوں میںآشیانہ بناتا ہو‘‘(تصنیف :مردم دیدہ)
اگرچہ حضرت مولانا سے والد صاحب کی یہ ملاقات چند منٹ کی تھی لیکن اس کا بڑا گہرا اثر ہوا اوروالد صاحب عمر بھر کے لئے ان کی علمی و ادبی شخصیت کے اسیر ہو گئے، پھر جب حسرت صاحب کی والدہ یعنی میری دادی فضل بی بی کا انتقال ہوا تو وہ شملہ کی ملازمت چھوڑ واپس پونچھ آ گئے، یہاں کچھ دن ٹھہر کر حسرت صاحب نے کلکتہ کا رخ کیا، یہ۱۹۲۱ء کی بات ہے، والد صاحب کی پیدائش ۱۳۲۲ھج یعنی ۱۹۰۴ء کی ہے ، اس اعتبار سے جب وہ کلکتہ تشریف لائے تو ان کی عمر۱۷ برس تھی،کلکتہ میں انہوں نے بدر الدین سٹریٹ میں ایک چار منزلہ عمارت کی تیسری منزل پر ایک کمرہ کرائے پر لیا،مظفر الحسن شمیم اور سلیم اللہ فہمی بھی اسی منزل پر رہتے تھے، والد صاحب شعر و سخن کے دلدادہ اور مجلس طراز تھے، انہوں نے یہاں اپنی مجلس سجائی تو مظفر الحسن شمیم اور سلیم اللہ فہمی کے ہمراہ محفوظ الحق اور نجیب اشرف ندوی جیسے دوستوں کی آمد بھی شروع ہو گئی،پھر وہ پاس ہی زکریا سٹریٹ کے رنگون ریستوران میں بیٹھنے لگے، یہاں زیادہ تر علم و ادب کا اچھا ذوق رکھنے والے ایرانی تاجر آتے تھے، فارسی شاعری اور تمدن پر باتیں ہوتی تھیں، حسرت صاحب ان سے فارسی میں بے تکلف گفتگو فرماتے، آقائے موید الاسلام جلال الدین طہرانی بھی جو محترم جمال الدین افغانی کے مرید اور’ جبل المتین ‘کے مدیر تھے اور دنیائے اسلام میں جن کا بہت بلند مرتبہ ، وہ بھی یہاں آتے اور اپنی سیاسی بصیرت سے پر گفتگو سے سب کو فیضیاب کرتے ، حسرت صاحب کی ان سے یہیں ملاقات ہوئی اور وہ کبھی کبھی ان سے ملنے ان کے گھر بھی جانے لگے،پھر مسلم انسٹی ٹیوٹ کلکتہ میں بھی مسلمان دانشوروں کی مجلس ہوتی تھی، حسرت صاحب وہاں بھی جاتے تھے، یہاں وحشت کلکتوی، نواب نصیر حسین خیال جیسے اصحاب سے ادبی گفتگو ہوتی، سیاسی اور مذہبی بحثیں چھڑ جاتیں،
نواب نصیر حسین خیال تالتلہ کے پاس رہتے تھے، ان کے ہاں اتوار کو محفل ہوتی مولانا شائق احمدعثمانی، نوابزادہ ایف ایم عبدالعلی،باقی غازی پوری،خان بہادر رضا علی وحشت،پروفیسر محفوظ الحق اور پروفیسر عبدالرحیم وہاں جمع ہوتے تھے، یہاں قریب ہی جناب شاد عظیم آبادی کا آشیانہ تھا، والد صاحب ان کی خدمت میں بھی حاضری دیتے تھے وہ بہت ضعیف ہو چکے تھے، اس دوران والد صاحب نے مولانا ابوالکلام آزاد سے ملنے کی بہت کوشش کی مگر ملاقات نہ ہو سکی پھر جب مولانا نے الہلال کے ساتھ ایک روزنامہ’’پیغام‘‘ نکالنے کا سوچا تو انہوں نے والد صاحب کو بلا بھیجا، یوں والد صاحب نے صحافت کی دنیا میں اپنا پہلا قدم رکھا،پیغام ۱۹۲۱ء میں ستمبر سے دسمبر تک ہی چلا مگر والد صاحب اس سے پہلے ہی اس سے الگ ہو چکے تھے البتہ اس وابستگی کے دوران انہوں نے اپنے آپ کو ترجمے میں مشاق کر لیا،
والد صاحب کی ابتدائی علمی تربیت دادا جی بدر الدین بدر اور والد صاحب کے نانا حسن علی نے کی تھی، یہ دونوں بزرگ اردو اور فارسی میں کمال رکھتے تھے، والد صاحب کی ابتدائی علمی تربیت دادا جی بدر الدین بدر اوروالد صاحبکے نانا حسن علی نے کی تھی، یہ دونوں بزرگ اردو اور فارسی میں کمال رکھتے تھے، دادا جی کو کشمیری اور سنسکرت پر بھی عبور حاصل تھا اور پہاڑی زبان پر بھی ان کی گرفت تھی نانا حسن علی زیادہ اردو میں لکھتے اورنعت گوئی کا شوق رکھتے تھے، ان دونوں کی تربیت والد صاحب کے لئے ایک مضبوط بنیاد ثابت ہوئی، پھر پونچھ میں اسلامیہ مڈل سکول کے ہیڈ ماسٹر منشی صادق علی خان کا بھی ان پر اثر ہوا،صادق علی خان صاحب مخزن کے ابتدائی دور کے لکھنے والوں میں سے تھے اور اپنے سکول میں شعر و ادب کی محفلوں کااہتمام کرتے تھے ، ان محفلوں نے چراغ حسن حسرت کو چست کیااور انہوں نے چھوٹی عمر میں ہی شعر کہنا شروع کر دیا ، ان کے مہربانوں میں خان بہادر احمد دین بھی تھے وہ ایک مدت تک ایران کے برطانوی سفارت خانے میں رہ چکے تھے اور پونچھ میں جج ہو کر آئے تھے، ان کے ساتھ گفتگو میں انہیں فارسی بول چال کا سلیقہ آیا۔
ربط
http://shafaqna.com/urdu/component/k2/item/3929-شفقنا-خاص-چراغ-حسن-حسرت-کے-صحافتی-ادوار1.html