فراز چشمِ گریاں میں وہ سیلاب تھے اے یار کہ بس

فرخ منظور

لائبریرین

نیا آذر​

مری رفیقِ طرب گاہ، تیری آمد پر
نئے سروں میں نئے گیت گائے تھے میں نے
نفس نفس میں جلا کر اُمید کے دیپک
قدم قدم پہ ستارے بچھائے تھے میں نے
ہوا سے لوچ، کَلی سے نکھار مانگا تھا
ترے جمال کا چہرہ سنوارنے کے لئے
کنول کنول سے خریدی تھی حسرتِ دیدار
نظر نظر کو جِگر میں اتارنے کے لئے
بہت سے گیت چھلکتے رہے اُفَق کے قریب
بہت سے پھول برستے رہے فضاؤں میں
الجھ الجھ گئیں مجروح زیست کی گرہیں
بکھر بکھر گئیں انگڑائیاں خلاؤں میں
میں پوچھتا ہوں کہ اے رنگ و نور کی دیوی
علاجِ تیرہ شبی کیا اِسی کو کہتے ہیں !
بجھے بجھے سے یہ مفلس دیئے نہ جانے کیا
سُلگ سُلگ کے تری بےحسی کو کہتے ہیں
یہ گیت سربگریباں ہیں تیرے جانے سے
یہ نو عروس ستارے بڑھا رہے ہیں سہاگ
کلی کلی کو تری بےرخی کا شکوہ ہے
نفس نفس سے نکلتی ہے ایک ایسی آگ
جسے بجھاؤں تو دل زمہریر ہو جائے
ترا عظیم تصور حقیر ہو جائے

مصطفیٰ زیدی
 
آخری تدوین:
Top