میر چشم سے خوں ہزار نکلے گا ۔ میر تقی میر

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

چشم سے خوں ہزار نکلے گا
کوئی دل کا بخار نکلے گا

اُس کی نخچیر گہ سے روح الامیں
ہو کے آخر شکار نکلے گا

آندھیوں سے سیاہ ہوگا چرخ
دل کا تب کچھ غبار نکلے گا

*ہوئے رے لاگ تیرِ مژگاں کی
کس کے سینے کے پار نکلے گا

نازِ خورشید کب تلک کھینچیں
گھر سے کب اپنے یار نکلے گا

خون ہی آئے گا تو آنکھوں سے
ایک سیلِ بہار نکلے گا

عزلتِ میر عشق میں کب تک
ہو کے بے اختیار نکلے گا

(میر تقی میر)

*ہائے رے

دیوانِ سوم
 

مغزل

محفلین
واہ واہ ، بہت عمدہ ، لاجواب ، بہت خواب ، کیا ہی عمدہ کلام ، انتخاب اور پیش کش ہے واہ ، شکریہ سخنور
 
Top