جٹ صاحب
محفلین
جرمنی چلیں؟
جرمنی مغربی یورپ کے خوشحال ترین ملکوں میں سر فہرست ہے۔ اس کی آبادی تقریباً 8 کروڑ ہے جس میں 81 فی صد جرمن اور باقی 19 فی صد دوسرے ملکوں سے آکر بسنے والے باشندے ہیں۔اس کی آبادی مغربی یورپ کے تمام ملکوں میں سب سے زیادہ ہے۔اس کا رقبہ 357021 مربع کلو میٹر ہے۔جرمنی میں 16 ریاستیں ہیں جو وفاق کے تحت چلتی ہیں جبکہ اس کا دارالحکومت برلن ہے جوتقریباً 35 لاکھ لوگوں کا گنجان آباد شہر ہے۔برلن کو دارالحکومت کی حیثیت 1991ء میں ملی۔ اس سے قبل مغربی جرمنی کا ایک شہر بون (1949ءتا 1990ء)جرمنی کا دارالحکومت رہا ہے۔
جرمنی کی تاریخ بہت قدیم ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں 6200 چھوٹے بڑے میوزم ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انسان یہاں 6 لاکھ سال پہلے سے موجود تھے۔ دونوں عالمی جنگوں میں بھی جرمنی کا اہمکردار رہاہے جن کے دوران اس کو زبردست جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلی جنگ عظیم کا سبب بھی یہی ملک بنا۔ 28 جون 1914ء کو آسٹریا کے کراؤن پرنس کے قتل کے رد عمل میں یہ جنگ چھڑی جس میں اکیلے جرمنی کے 20 لاکھ فوجی لقمہ اجل بنے ۔1933ء میں ہونے والے انتخابات کے نتیجےمیں نازی پارٹی بھاری اکثریت سے جیتی اور اڈولف ہٹلر جرمنی کا چانسلر بن بیٹھا۔ اس نے 12 سال جرمنی پر حکومت کی۔30اپریل 1945ء کو جب سوویت سپاہی رائش چانسلری(چانسلر کا دفتر) سے چند بلاک کے فاصلے پر تھے تو ہٹلر نے خود کو گولی مار کر خود کشی کر لی۔ جہاں دوسری جنگ عظیم کا سبب اٹلی کی فسطائیت تھی وہیں ایک اور اہم وجہ ہٹلر کی حکومت کی سخت خارجہ پالیسی بھی تھی۔ ستمبر 1939ءمیں جب ہٹلر نے پولینڈ پر حملہ کیا تو فرانس اور برطانیہ نے جرمنی کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ (واضح رہے کہ برطانیہ کی طرف سے جرمنی کو 48 گھنٹوں کی مہلت دی گئی تھی ۔اُن 48 گھنٹوں میں جرمنی کی جانب سے کسی بھی قسم کا جواب نہ پا کر برطانیہ نے یہ قدم اٹھایا۔ اُس وقت برطانیہ میں کِنگ جارج VIشاہی تخت سنبھالے ہوئے تھا۔)اس جنگ کے نتیجے میں تقریباً 8 لاکھ جرمن ہلاکتیں ہوئیں جن میں لگ بھگ ساڑھے پانچ لاکھ فوجی تھے۔اس کے علاوہ جرمنی مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ جرمنی دو حصوں میں تقسیم ہوگیا یعنی مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی۔ 3 اکتوبر 1990ء کو مشرقی اور مغربی جرمنی ایک بار پھر متحد ہو گئے اور تب سے ہرسال 3 اکتوبر کو جرمنی کے باسی بھرپور جوش و خروش کے ساتھ قومی دن کے طور پر یوم اتحاد جرمنی مناتے ہیں۔
خون ریزی اور جنگی اکھیڑ پچھاڑ کے بعداب ذرا اس ملک کے چند روشن پہلوؤں کے بارے میں بات ہو جائے۔ جرمنی کی معیشت یورپ کی سب سے بڑی اور مضبوط ترین معیشت ہے۔ 3815 کھرب ڈالر کی GDPکے ساتھ اس کا شمار دنیا کی چوتھی بڑی معیشت کی حیثیت سےہوتا ہے۔یہ دنیا کا تیسرا بڑا برآمد کنندہ ہے۔اس کی برآمدات میں ہیوی مشینری، گاڑیاں، کیمیکلز، الیکٹرانک مصنوعات، فارماسیوٹیکلز، پلاسٹک، ربڑ، ٹیکسٹائل اور گھریلو استعمال کی اشیا وغیرہ شامل ہیں۔یہاں بے روزگاری کی شرح بھی صرف 5فی صد ہے۔ چند سال قبل یونان میں پیش آنے والے مالی بحران (جس کی لپیٹ میں وہ اب بھی ہے)کے موقع پر جرمنی نے یونان کو پیشکش کی کہ وہ اپنی وزارت مالیات چند عرصے کے لیے اس کے حوالے کر دے، وہ اسے یقیناً مالی بحران سے باہر نکال دے گا مگر بد قسمت یونان نے یہ پیشکش ٹھکرا دی۔
ٹیکنالوجی اور جدیدیت میں جرمنی ایک اہم مقام رکھتا ہے۔اس کی معیشت کا زیادہ تر انحصار اس کی مختلف چھوٹی بڑی صنعتوں پر ہے۔ جرمنی اپنے جی ڈی پی کا 2.6 فی صد ٹیکنالوجیکل اور انڈسٹریل تحقیق و ترقی پر خرچ کرتا ہے۔اس ضمن میں جرمنی نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔زندگی کے ہر شعبے میں، خواہ اس کا تعلق تعلیم سے ہو، سائنس سے ہو، کھیل سے ہو، روز مرہ زندگی سے ہو یا صحت سے ہو ،جرمنی نے بہت سی ایجادات اور دریافتیں کی ہیں جن کی ایک لمبی فہرست ہے جو شامل تحریر کرنا ممکن نہیں۔ اس کی مشہور زمانہ برانڈز اور کمپنیوں میں مرسیڈیز بینز، آڈی، فولکس واگن، بی ایم ڈبلیو، پورشے، ڈی ایچ ایل اور سیمنز سر فہرست ہیں۔ آج جن آسائشات نے ہماری زندگی آسان بنا رکھی ہے ان کی دستیابی میں جرمنی کا کردار نا قابل فراموش ہے۔
تعلیم کے شعبے کی اگر بات کریں تو اس میں بھی جرمنی نے اپنا لوہا منوا رکھا ہے۔ جرمنی میں کل 370 یونیورسٹیاں ہیں جن میں 200 سے زائد Applied Sciencesکی یونیورسٹیاں ہیں۔ یہ ملک نہ صرف اپنے شہریوں کو مفت تعلیم کی فراہمی یقینی بناتا ہے بلکہ غیر ملکی طالب علموں کے لیے بھی مفت تعلیم کا حصول ممکن ہے اگرچہ داخلہ حاصل کرنا قدرے محنت طلب کام ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق جرمنی میں حصول علم میں کوشاں26 لاکھ طالب علموں میں سے 3 لاکھ غیر ملکی ہیں۔ 8200 لائبریریاں نہ صرف مقامی افراد کو بلکہ بین الاقوامی طلبا کو بھی کتابوں کے خزانے سے مستفید کرتی ہیں۔ بہت سے سائنسدانوں، کیمیا دانوں، طبیعات دانوں، ریاضی دانوں،دانشوروں اور مفکروں کا تعلق جرمنی سے تھا۔سائنس کی دنیا میں جانا پہچانا نام البرٹ آئنسٹائن بھی جرمن تھا۔
2012ء کے دوران ہمارا جرمنی جانے کا اتفاق ہوا۔ ہم اس ملک کی خوبصورتی اور قانون کی بالادستی دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ لوگ ہر اصول اور قانون کی پاسداری کرتےہیں۔ہر طرف سبزہ زار ہے۔ صفائی ستھرائی کا خاص اہتمام کیا گیا ہے۔(براستہ جرمنی ہم لوگ نیدر لینڈز بھی گئے جہاں پہنچ کر ہمیں لگا کہ ڈیفنس سے اٹھ کر ہم کسی صاف ستھری مگر کچی آبادی میں آگئے۔)لوگ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔اتنے پر سکون ماحول میں نہ کوئی آپ کو چھیڑے گا نہ آپ کا جی چاہے گا کسی کو بلا وجہ چھیڑنے کا۔ وہاں کے لوگ انتہائی مہمان نواز اور اخلاق سے بھرے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پرپیدل چلنے والے پر فرض نہیں کہ وہ آنے جانے والی گاڑیوں کو دیکھ کر چلےبلکہ گاڑی چلانے والے پیدل چلنے والوں کا خیال رکھتے ہیں۔ اس کے تعلق سے ایک لطیفہ یاد آیا جو ہمارے سامنے ہی وقوع پذیر ہوا۔جرمنی میں ٹریفک کے اشاروں کے ساتھ پیدل چلنے والوں کے لیے بھی اشارے موجود ہوتے ہیں اور اس کے نیچے ایک بٹن ہوتا ہے جس کو دبانے پر اشارہ سبز ہوتا ہے اور پیدل چلنے والا سڑک عبور کر سکتا ہے۔ ہمارے ایک ہم سفر بڑے غور سے اُس اشارے کو دیکھ رہے تھے۔ ہم نے سوچا شاید سبز ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔تھوڑی دیر میں جب اشارہ سبز ہوا تو گویا ہوئے"یار، کیا بات ہے جرمنی کی! انسانوں کے لیے بھی سگنل لگا دیے تاکہ آپس میں "ایکسی ڈنٹ" نہ ہونے پائے۔"ہم منہ سے تو کچھ نہ بولے مگر جی چاہا زور دار قہقہہ لگائیں۔ مگر کیا کرتے وہ ہمارے سینئر تھے لہٰذا ہم خاموش رہے۔اس کے بعد جب موصوف واپس پاکستان آئے تو سب کو کہتے پھر رہے تھے کہ "یار، وہاں تو انسانوں کے بھی سگنل ہوتے ہیں۔ "خیر، جہاں کہیں پیدل چلنے والوں کا "اشارہ" موجود نہیں اور سڑک پار کرنا مقصود ہو تو آپ بلا جھجھک عبور کر سکتے ہیں۔ آنے جانے والا ٹریفک خود آپ کے لیے رک جائے گا۔
جرمن وقت کے بہت پابند ہوتے ہیں۔یہاں کی ایک اور چیز ہمیں یہ پسند آئی کہ اگر کاروباری اوقات کار ختم ہو چکے ہیں تو سب دکانیں وغیرہ بند ہو جائیں گی خواہ گاہکوں کی ایک لمبی قطار ہی کیوں نہ لگی ہو۔ جس کا جو وقت ہے وہ اسی وقت پر دکان کھولے اور بند کرے گا۔ اگر آپ کسی کو پانچ منٹ کا وقت دیتے ہیں تو آپ پر لازم ہے کہ پانچ منٹ ہی میں متعلقہ کام کر لیں۔وہاں پانچ منٹ کا وقت پانچ منٹ ہی ہےنہ کہ ہمارے ایک دیرینہ دوست کی طرح 20 منٹ۔ (ہمارے ایک دوست جب بھی ہمیں 20 منٹ کا وقت دیں تو ہم سمجھ جاتے ہیں کہ ان کی مراد ایک گھنٹہ یا اس سے بھی زیادہ ہے۔بسا اوقات تو وہ آنے کا کہہ کر دو دو دن تک آتے ہی نہیں۔)ایک روز ہمارے چند ساتھی لطافت کے نشے میں چور یہ بھول بیٹھے کہ وہ جرمنی میں ہیں، پاکستان میں نہیں۔ رات بارہ بجے کے قریب انہوں نے اپنے اپارٹمنٹ کی کھڑکیاں کھولیں اور غل غپاڑہ مچانا شروع کر دیا۔ چند ہی لمحوں میں پولیس کی ایک گاڑی ہمارے دروازے پر تھی۔ جب پولیس نے فلیش لائٹ مار کر اشارہ دیا کہ "انسان بنو" تو ہمارے ساتھیوں کی حالت ایسی تھی جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ ( جب یہ واقع رونما ہوا ہم مہذب لوگوں کی طرح سو رہے تھے۔ اس واقعے کی روداد ہمارے ساتھی نےا گلی صبح ہمیں سنائی۔)
ہفتے کی پانچ دن یہ محنت کش(جرمن) دل و جان سے کام کرتے ہیں۔آپ کو یوں معلوم ہوگا کہ جیسے یہاں انسان معدوم ہو رہے ہیں۔لوگ سڑکوں پر بہت کم نظر آئیں گے۔ مگر ویک اینڈ کا آغاز ہوتے ہی یہ منچلے سیر تفریح کے لیے گھروں سے نکل پڑتےہیں۔ کام کے وقت کام اور آرام کے وقت "تفریح" کے اصول کو یہ لوگ گرہ میں باندھ چکے ہیں۔ شاید یہی ان کی ترقی کا راز بھی ہے۔امریکہ کے بعد جرمنی دنیا کی دوسرے نمبر پر پسندیدہ ترین نقل مکانی کی منزل ہے۔ تو پھر کیا خیال ہے...جرمنی چلیں؟
(پہلی کاوش)
جرمنی مغربی یورپ کے خوشحال ترین ملکوں میں سر فہرست ہے۔ اس کی آبادی تقریباً 8 کروڑ ہے جس میں 81 فی صد جرمن اور باقی 19 فی صد دوسرے ملکوں سے آکر بسنے والے باشندے ہیں۔اس کی آبادی مغربی یورپ کے تمام ملکوں میں سب سے زیادہ ہے۔اس کا رقبہ 357021 مربع کلو میٹر ہے۔جرمنی میں 16 ریاستیں ہیں جو وفاق کے تحت چلتی ہیں جبکہ اس کا دارالحکومت برلن ہے جوتقریباً 35 لاکھ لوگوں کا گنجان آباد شہر ہے۔برلن کو دارالحکومت کی حیثیت 1991ء میں ملی۔ اس سے قبل مغربی جرمنی کا ایک شہر بون (1949ءتا 1990ء)جرمنی کا دارالحکومت رہا ہے۔
جرمنی کی تاریخ بہت قدیم ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں 6200 چھوٹے بڑے میوزم ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انسان یہاں 6 لاکھ سال پہلے سے موجود تھے۔ دونوں عالمی جنگوں میں بھی جرمنی کا اہمکردار رہاہے جن کے دوران اس کو زبردست جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلی جنگ عظیم کا سبب بھی یہی ملک بنا۔ 28 جون 1914ء کو آسٹریا کے کراؤن پرنس کے قتل کے رد عمل میں یہ جنگ چھڑی جس میں اکیلے جرمنی کے 20 لاکھ فوجی لقمہ اجل بنے ۔1933ء میں ہونے والے انتخابات کے نتیجےمیں نازی پارٹی بھاری اکثریت سے جیتی اور اڈولف ہٹلر جرمنی کا چانسلر بن بیٹھا۔ اس نے 12 سال جرمنی پر حکومت کی۔30اپریل 1945ء کو جب سوویت سپاہی رائش چانسلری(چانسلر کا دفتر) سے چند بلاک کے فاصلے پر تھے تو ہٹلر نے خود کو گولی مار کر خود کشی کر لی۔ جہاں دوسری جنگ عظیم کا سبب اٹلی کی فسطائیت تھی وہیں ایک اور اہم وجہ ہٹلر کی حکومت کی سخت خارجہ پالیسی بھی تھی۔ ستمبر 1939ءمیں جب ہٹلر نے پولینڈ پر حملہ کیا تو فرانس اور برطانیہ نے جرمنی کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ (واضح رہے کہ برطانیہ کی طرف سے جرمنی کو 48 گھنٹوں کی مہلت دی گئی تھی ۔اُن 48 گھنٹوں میں جرمنی کی جانب سے کسی بھی قسم کا جواب نہ پا کر برطانیہ نے یہ قدم اٹھایا۔ اُس وقت برطانیہ میں کِنگ جارج VIشاہی تخت سنبھالے ہوئے تھا۔)اس جنگ کے نتیجے میں تقریباً 8 لاکھ جرمن ہلاکتیں ہوئیں جن میں لگ بھگ ساڑھے پانچ لاکھ فوجی تھے۔اس کے علاوہ جرمنی مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ جرمنی دو حصوں میں تقسیم ہوگیا یعنی مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی۔ 3 اکتوبر 1990ء کو مشرقی اور مغربی جرمنی ایک بار پھر متحد ہو گئے اور تب سے ہرسال 3 اکتوبر کو جرمنی کے باسی بھرپور جوش و خروش کے ساتھ قومی دن کے طور پر یوم اتحاد جرمنی مناتے ہیں۔
خون ریزی اور جنگی اکھیڑ پچھاڑ کے بعداب ذرا اس ملک کے چند روشن پہلوؤں کے بارے میں بات ہو جائے۔ جرمنی کی معیشت یورپ کی سب سے بڑی اور مضبوط ترین معیشت ہے۔ 3815 کھرب ڈالر کی GDPکے ساتھ اس کا شمار دنیا کی چوتھی بڑی معیشت کی حیثیت سےہوتا ہے۔یہ دنیا کا تیسرا بڑا برآمد کنندہ ہے۔اس کی برآمدات میں ہیوی مشینری، گاڑیاں، کیمیکلز، الیکٹرانک مصنوعات، فارماسیوٹیکلز، پلاسٹک، ربڑ، ٹیکسٹائل اور گھریلو استعمال کی اشیا وغیرہ شامل ہیں۔یہاں بے روزگاری کی شرح بھی صرف 5فی صد ہے۔ چند سال قبل یونان میں پیش آنے والے مالی بحران (جس کی لپیٹ میں وہ اب بھی ہے)کے موقع پر جرمنی نے یونان کو پیشکش کی کہ وہ اپنی وزارت مالیات چند عرصے کے لیے اس کے حوالے کر دے، وہ اسے یقیناً مالی بحران سے باہر نکال دے گا مگر بد قسمت یونان نے یہ پیشکش ٹھکرا دی۔
ٹیکنالوجی اور جدیدیت میں جرمنی ایک اہم مقام رکھتا ہے۔اس کی معیشت کا زیادہ تر انحصار اس کی مختلف چھوٹی بڑی صنعتوں پر ہے۔ جرمنی اپنے جی ڈی پی کا 2.6 فی صد ٹیکنالوجیکل اور انڈسٹریل تحقیق و ترقی پر خرچ کرتا ہے۔اس ضمن میں جرمنی نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔زندگی کے ہر شعبے میں، خواہ اس کا تعلق تعلیم سے ہو، سائنس سے ہو، کھیل سے ہو، روز مرہ زندگی سے ہو یا صحت سے ہو ،جرمنی نے بہت سی ایجادات اور دریافتیں کی ہیں جن کی ایک لمبی فہرست ہے جو شامل تحریر کرنا ممکن نہیں۔ اس کی مشہور زمانہ برانڈز اور کمپنیوں میں مرسیڈیز بینز، آڈی، فولکس واگن، بی ایم ڈبلیو، پورشے، ڈی ایچ ایل اور سیمنز سر فہرست ہیں۔ آج جن آسائشات نے ہماری زندگی آسان بنا رکھی ہے ان کی دستیابی میں جرمنی کا کردار نا قابل فراموش ہے۔
تعلیم کے شعبے کی اگر بات کریں تو اس میں بھی جرمنی نے اپنا لوہا منوا رکھا ہے۔ جرمنی میں کل 370 یونیورسٹیاں ہیں جن میں 200 سے زائد Applied Sciencesکی یونیورسٹیاں ہیں۔ یہ ملک نہ صرف اپنے شہریوں کو مفت تعلیم کی فراہمی یقینی بناتا ہے بلکہ غیر ملکی طالب علموں کے لیے بھی مفت تعلیم کا حصول ممکن ہے اگرچہ داخلہ حاصل کرنا قدرے محنت طلب کام ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق جرمنی میں حصول علم میں کوشاں26 لاکھ طالب علموں میں سے 3 لاکھ غیر ملکی ہیں۔ 8200 لائبریریاں نہ صرف مقامی افراد کو بلکہ بین الاقوامی طلبا کو بھی کتابوں کے خزانے سے مستفید کرتی ہیں۔ بہت سے سائنسدانوں، کیمیا دانوں، طبیعات دانوں، ریاضی دانوں،دانشوروں اور مفکروں کا تعلق جرمنی سے تھا۔سائنس کی دنیا میں جانا پہچانا نام البرٹ آئنسٹائن بھی جرمن تھا۔
2012ء کے دوران ہمارا جرمنی جانے کا اتفاق ہوا۔ ہم اس ملک کی خوبصورتی اور قانون کی بالادستی دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ لوگ ہر اصول اور قانون کی پاسداری کرتےہیں۔ہر طرف سبزہ زار ہے۔ صفائی ستھرائی کا خاص اہتمام کیا گیا ہے۔(براستہ جرمنی ہم لوگ نیدر لینڈز بھی گئے جہاں پہنچ کر ہمیں لگا کہ ڈیفنس سے اٹھ کر ہم کسی صاف ستھری مگر کچی آبادی میں آگئے۔)لوگ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔اتنے پر سکون ماحول میں نہ کوئی آپ کو چھیڑے گا نہ آپ کا جی چاہے گا کسی کو بلا وجہ چھیڑنے کا۔ وہاں کے لوگ انتہائی مہمان نواز اور اخلاق سے بھرے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پرپیدل چلنے والے پر فرض نہیں کہ وہ آنے جانے والی گاڑیوں کو دیکھ کر چلےبلکہ گاڑی چلانے والے پیدل چلنے والوں کا خیال رکھتے ہیں۔ اس کے تعلق سے ایک لطیفہ یاد آیا جو ہمارے سامنے ہی وقوع پذیر ہوا۔جرمنی میں ٹریفک کے اشاروں کے ساتھ پیدل چلنے والوں کے لیے بھی اشارے موجود ہوتے ہیں اور اس کے نیچے ایک بٹن ہوتا ہے جس کو دبانے پر اشارہ سبز ہوتا ہے اور پیدل چلنے والا سڑک عبور کر سکتا ہے۔ ہمارے ایک ہم سفر بڑے غور سے اُس اشارے کو دیکھ رہے تھے۔ ہم نے سوچا شاید سبز ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔تھوڑی دیر میں جب اشارہ سبز ہوا تو گویا ہوئے"یار، کیا بات ہے جرمنی کی! انسانوں کے لیے بھی سگنل لگا دیے تاکہ آپس میں "ایکسی ڈنٹ" نہ ہونے پائے۔"ہم منہ سے تو کچھ نہ بولے مگر جی چاہا زور دار قہقہہ لگائیں۔ مگر کیا کرتے وہ ہمارے سینئر تھے لہٰذا ہم خاموش رہے۔اس کے بعد جب موصوف واپس پاکستان آئے تو سب کو کہتے پھر رہے تھے کہ "یار، وہاں تو انسانوں کے بھی سگنل ہوتے ہیں۔ "خیر، جہاں کہیں پیدل چلنے والوں کا "اشارہ" موجود نہیں اور سڑک پار کرنا مقصود ہو تو آپ بلا جھجھک عبور کر سکتے ہیں۔ آنے جانے والا ٹریفک خود آپ کے لیے رک جائے گا۔
جرمن وقت کے بہت پابند ہوتے ہیں۔یہاں کی ایک اور چیز ہمیں یہ پسند آئی کہ اگر کاروباری اوقات کار ختم ہو چکے ہیں تو سب دکانیں وغیرہ بند ہو جائیں گی خواہ گاہکوں کی ایک لمبی قطار ہی کیوں نہ لگی ہو۔ جس کا جو وقت ہے وہ اسی وقت پر دکان کھولے اور بند کرے گا۔ اگر آپ کسی کو پانچ منٹ کا وقت دیتے ہیں تو آپ پر لازم ہے کہ پانچ منٹ ہی میں متعلقہ کام کر لیں۔وہاں پانچ منٹ کا وقت پانچ منٹ ہی ہےنہ کہ ہمارے ایک دیرینہ دوست کی طرح 20 منٹ۔ (ہمارے ایک دوست جب بھی ہمیں 20 منٹ کا وقت دیں تو ہم سمجھ جاتے ہیں کہ ان کی مراد ایک گھنٹہ یا اس سے بھی زیادہ ہے۔بسا اوقات تو وہ آنے کا کہہ کر دو دو دن تک آتے ہی نہیں۔)ایک روز ہمارے چند ساتھی لطافت کے نشے میں چور یہ بھول بیٹھے کہ وہ جرمنی میں ہیں، پاکستان میں نہیں۔ رات بارہ بجے کے قریب انہوں نے اپنے اپارٹمنٹ کی کھڑکیاں کھولیں اور غل غپاڑہ مچانا شروع کر دیا۔ چند ہی لمحوں میں پولیس کی ایک گاڑی ہمارے دروازے پر تھی۔ جب پولیس نے فلیش لائٹ مار کر اشارہ دیا کہ "انسان بنو" تو ہمارے ساتھیوں کی حالت ایسی تھی جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ ( جب یہ واقع رونما ہوا ہم مہذب لوگوں کی طرح سو رہے تھے۔ اس واقعے کی روداد ہمارے ساتھی نےا گلی صبح ہمیں سنائی۔)
ہفتے کی پانچ دن یہ محنت کش(جرمن) دل و جان سے کام کرتے ہیں۔آپ کو یوں معلوم ہوگا کہ جیسے یہاں انسان معدوم ہو رہے ہیں۔لوگ سڑکوں پر بہت کم نظر آئیں گے۔ مگر ویک اینڈ کا آغاز ہوتے ہی یہ منچلے سیر تفریح کے لیے گھروں سے نکل پڑتےہیں۔ کام کے وقت کام اور آرام کے وقت "تفریح" کے اصول کو یہ لوگ گرہ میں باندھ چکے ہیں۔ شاید یہی ان کی ترقی کا راز بھی ہے۔امریکہ کے بعد جرمنی دنیا کی دوسرے نمبر پر پسندیدہ ترین نقل مکانی کی منزل ہے۔ تو پھر کیا خیال ہے...جرمنی چلیں؟
(پہلی کاوش)
آخری تدوین: