چلو بچپن کو اپنے ہم۔۔۔۔

فرحت کیانی

لائبریرین
چلو آج یوں ہی کرتے ہیں
کوئی عہد کرتے ہیں
ناں پیماں کرتے ہیں
یوں ہی ہاتھوں میں دے کر ہاتھ
کسی بے نام رستے پر
کسی انجان منزل کو
چلو آؤ نکلتے ہیں

چلو آج یوں ہی کرتے ہیں
کبھی جگنو پکڑتے ہیں
کہیں سے پھول چُنتے ہیں
کہیں سے رنگ لیتے ہیں
اور اک گلشن بناتے ہیں

چلو آج یوں ہی کرتے ہیں
بنا کر کشتی کاغذ کی
دریا کی گود بھرتے ہیں
کہیں ساحل پر سمندر کے
گھروندہ اک بناتے ہیں
سجاتے ہیں سنوارتے ہیں
پھرخود ہی توڑ دیتے ہیں
چلیں یہ کھیل کھیلیں پھر

چلو آج یوں ہی کرتے ہیں
کسی بے معنی سی بات پر
بہت ہی کھلکھلاتے ہیں
کوئی جو چھیڑ دے ہم کو
بہت زوروں سے روتے ہیں
چلو بچپن کو اپنے ہم
ذرا پھر سے بُلاتے ہیں
چلو آج یوں ہی کرتے ہیں

...anonymous
 
Top