رضوان
محفلین
صاحبان حضرت مستنصر حسین صاحب جانے کس دور میں گئے تھے مگر لکھا انہوں نے “ رتی گلی“ میں تھا اور بہت درست لکھا تھا(2003یا 2002)۔ اس دفعہ کیوں کہ سیزن کے شروع میں ہی ہم لوگ گئے تو کافی سہولت رہی ایک تو یہ کہ راستے کھلے ہونے کے باوجود سیاح بہت ہی کم تھے گنے چنے لوگ تھے کہ عوام یہی سوچ کر گھروں میں دُبکی ہوئی تھی یا سوات کی جانب جا رہی تھی کہ ان علاقوں میں راستے اور دیگر سہولیات زلزلے سے تباہ ہوچکی ہوں گی۔ راستے ٹوٹے ہوئے ضرور تھے مگر پھر بھی بالاکوٹ سے ناران تک 4 گھنٹے میں بس آجاتی تھی۔ نقصاں بالاکوٹ سے کیوائی تک زیادہ ہوا ہے۔ ناران اور کاغان میں عمارات سلامت ہیں۔ بجلی صرف کیوائی تک ہے باقی علاقے اندھیرے میں ڈوبے رہتے ہیں۔ ہوٹل والے رات میں 12 بجے تک جنریٹر چلاتے ہیں پھر چاندنی یا ستارے اپنا جوبن دکھاتے ہیں۔ چاند کی شروع کی راتیں تھیں اس لیے ستاروں سے آسمان پَٹا پڑا تھا ایک جگمگاتا ہوا تھال ہمارے سروں پر آویزاں تھا۔
ناران سے پہلے کیوائی سے اوپر ایک مقام شوگران آتا ہے اس سے آگے “ سِری“ اور پھر “پائے“ اگر فطرت کو اپنے کنوارپنے کے جوبن میں دیکھنا ہو تو شاندار مقام ہے۔ جیپ کا ٹریک انتہائی خطرناک ہے (مگر مرنے کے خدشات کراچی یا لاہور کی سڑکوں سے کہیں کم ہیں اور اتنی حسین وادیاں ہمیں کہاں قیامت تک قبولتی ہیں۔) بالا کوٹ سے جیپ کے ذریعے 2 گھنٹے لگتے ہیں اور آپ حسین مرغزاروں میں پھولوں اور بادلوں میں ہوں گے۔
پچھلے سال ہم میاں بیوی صرف لالہ زار گئے تھے اور جس شخص نے اسے لالہ زار کا نام دیا اس کی کورذوقی کو کوستے تھے اس دفعہ پورا ٹبر تھا تو لالہ زار بھی اپنے جوبن پہ دکھائی دیا کہ جنگلی گلاب اور زرد پھولوں کے درمیان کہیں زمین دِکھتی نہیں تھی۔
مختصر یہ کہ الفاظ تو الفاظ کوئی کیمرہ نہیں کہ جو ان نظاروں کے حسن خوشبو اور ہوا کو قید کر سکے۔
لالہ زار سے واپس روڈ پر آکر جیپ کا ڈیزل ختم ہوا اور میری دلی مراد بَر آئی اس کے بعد ایک بچہ اور ایک بچی جیپ کے قریب اور باقیوں نے پیدل مارچ شروع کیا اسی وقت قریب کے گاؤں کے اسکول میں چھٹی بھی ہوئی تھی وہ تمام بچے بھی ایک جلوس کی صورت ہمارے ساتھ ساتھ جانبِ ناران روانہ ہوئے۔ ان بچوں سے باتیں کر کے ایک عجیب ہی لطف آیا۔
نمونے کے طور پر چند تصاویر منسلک کرتا ہوں باقی یہ کہ تصاویر دیکھ کر مجھے خود بھی مایوسی ہوئی تھی کہ قطعاً حق ادا نہیں ہوا۔ [img/]
ناران سے پہلے کیوائی سے اوپر ایک مقام شوگران آتا ہے اس سے آگے “ سِری“ اور پھر “پائے“ اگر فطرت کو اپنے کنوارپنے کے جوبن میں دیکھنا ہو تو شاندار مقام ہے۔ جیپ کا ٹریک انتہائی خطرناک ہے (مگر مرنے کے خدشات کراچی یا لاہور کی سڑکوں سے کہیں کم ہیں اور اتنی حسین وادیاں ہمیں کہاں قیامت تک قبولتی ہیں۔) بالا کوٹ سے جیپ کے ذریعے 2 گھنٹے لگتے ہیں اور آپ حسین مرغزاروں میں پھولوں اور بادلوں میں ہوں گے۔
پچھلے سال ہم میاں بیوی صرف لالہ زار گئے تھے اور جس شخص نے اسے لالہ زار کا نام دیا اس کی کورذوقی کو کوستے تھے اس دفعہ پورا ٹبر تھا تو لالہ زار بھی اپنے جوبن پہ دکھائی دیا کہ جنگلی گلاب اور زرد پھولوں کے درمیان کہیں زمین دِکھتی نہیں تھی۔
مختصر یہ کہ الفاظ تو الفاظ کوئی کیمرہ نہیں کہ جو ان نظاروں کے حسن خوشبو اور ہوا کو قید کر سکے۔
لالہ زار سے واپس روڈ پر آکر جیپ کا ڈیزل ختم ہوا اور میری دلی مراد بَر آئی اس کے بعد ایک بچہ اور ایک بچی جیپ کے قریب اور باقیوں نے پیدل مارچ شروع کیا اسی وقت قریب کے گاؤں کے اسکول میں چھٹی بھی ہوئی تھی وہ تمام بچے بھی ایک جلوس کی صورت ہمارے ساتھ ساتھ جانبِ ناران روانہ ہوئے۔ ان بچوں سے باتیں کر کے ایک عجیب ہی لطف آیا۔
نمونے کے طور پر چند تصاویر منسلک کرتا ہوں باقی یہ کہ تصاویر دیکھ کر مجھے خود بھی مایوسی ہوئی تھی کہ قطعاً حق ادا نہیں ہوا۔ [img/]