محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
ایک پنجابی نظم کا منظوم ترجمہ کرنے کی کوشش۔
چل اسکول چلیں ہم دونوں
چل اسکول چلیں ہم دونوں
کچّی کا ہم قاعدہ پڑھ لیں
کِسی سے کچی مٹی لے کر
تختی دھو کر دُھوپ میں رکھ کر
ماسٹر جی سے قلم بنوائیں
آ پھر چھوٹی عمر کی سب باتیں دُھرائیں
جب اسکول کی چھٹی ہوگی
گاؤں کے باہر کھیت میں چھُپ کر
چادر اُوپر تان کے بیٹھیں
آپس میں ہم باتیں کرلیں
دل کے دکھڑے سب ہی کہہ دیں
آ پھر چھوٹی عمر کی سب باتیں دُھرائیں
نرم زمین کہاں سے ڈھونڈیں
خار و خس سے اٹی ہوئی ہو
ہاتھ سے اِن خاروں کو ہٹاکر
شاہ شٹاپو کھیڈن دے لئی
ٹھیکرے سے پھر خانے کھینچیں
اپنی اپنی باری کھیلیں
آ پھر چھوٹی عمر کی سب باتیں دُھرائیں
اَج کے دن کو عید سمجھ کر
صاف چمکتے کپڑے پہنیں
برگد کی اونچی ٹہنی پر
رسے کا اِک جھولا ڈالیں
باری باری پینگ بڑھائیں
آ پھر چھوٹی عمر کی سب باتیں دُھرائیں
رہٹ جو ڈیرے پر چلتا ہو
دونوں بھاگے دوڑے جائیں
جھولے پر پھر پینگیں لے لیں
مٹکے سے تب پانی پی کے
رہٹ پہ جاکر خوب نہائیں
آ پھر چھوٹی عمر کی سب باتیں دُھرائیں
دونوں ہوں کمرے کے اندر
کُنڈی کوئی باہر سے لگادے
ہم دونوں پھر گھبراجائیں
چِیخیں ماریں، شور مچائیں
آ پھر چھوٹی عمر کی سب باتیں دُھرائیں
آپس میں ملنے جُلنے سے
چاہے گھر والے بھی روکیں
تب بھی دونوں چھُپ کر سب سے
آدھی رات کے سناٹے میں
کوٹھے پر جلدی چڑھ جائیں
آ پھر چھوٹی عمر کی سب باتیں دُھرائیں
چل اسکول چلیں ہم دونوں
چل اسکول چلیں ہم دونوں
کچّی کا ہم قاعدہ پڑھ لیں
کِسی سے کچی مٹی لے کر
تختی دھو کر دُھوپ میں رکھ کر
ماسٹر جی سے قلم بنوائیں
آ پھر چھوٹی عمر کی سب باتیں دُھرائیں
جب اسکول کی چھٹی ہوگی
گاؤں کے باہر کھیت میں چھُپ کر
چادر اُوپر تان کے بیٹھیں
آپس میں ہم باتیں کرلیں
دل کے دکھڑے سب ہی کہہ دیں
آ پھر چھوٹی عمر کی سب باتیں دُھرائیں
نرم زمین کہاں سے ڈھونڈیں
خار و خس سے اٹی ہوئی ہو
ہاتھ سے اِن خاروں کو ہٹاکر
شاہ شٹاپو کھیڈن دے لئی
ٹھیکرے سے پھر خانے کھینچیں
اپنی اپنی باری کھیلیں
آ پھر چھوٹی عمر کی سب باتیں دُھرائیں
اَج کے دن کو عید سمجھ کر
صاف چمکتے کپڑے پہنیں
برگد کی اونچی ٹہنی پر
رسے کا اِک جھولا ڈالیں
باری باری پینگ بڑھائیں
آ پھر چھوٹی عمر کی سب باتیں دُھرائیں
رہٹ جو ڈیرے پر چلتا ہو
دونوں بھاگے دوڑے جائیں
جھولے پر پھر پینگیں لے لیں
مٹکے سے تب پانی پی کے
رہٹ پہ جاکر خوب نہائیں
آ پھر چھوٹی عمر کی سب باتیں دُھرائیں
دونوں ہوں کمرے کے اندر
کُنڈی کوئی باہر سے لگادے
ہم دونوں پھر گھبراجائیں
چِیخیں ماریں، شور مچائیں
آ پھر چھوٹی عمر کی سب باتیں دُھرائیں
آپس میں ملنے جُلنے سے
چاہے گھر والے بھی روکیں
تب بھی دونوں چھُپ کر سب سے
آدھی رات کے سناٹے میں
کوٹھے پر جلدی چڑھ جائیں
آ پھر چھوٹی عمر کی سب باتیں دُھرائیں