نیرنگ خیال
لائبریرین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
پاکستان میں شہر سے شہر سفر کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ میری معلومات میں بسیں ہیں۔ کیوں کہ ٹرین کا نظام تو پورس کے ہاتھی کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ خیر موضوع کا تعلق نہ تو ٹرین سے ہے اور نہ ہی بس سے اور نہ انکے ناگفتہ بہہ حالات سے۔احقر گذشتہ بارہ سال سے ان بسوں کی خاک چاٹنے میں خاک ہو رہا ہے۔ بہاولپور، لاہور اور اسلام آباد سے اپنے آبائی شہر کا سفر ہو یا واپسی کا، جو قدر مجھے مشترک نظر آتی ہے وہ نہ تو سفر کرتے لوگ ہیں اور نہ انکے آداب سفر؛ بلکہ وہ ہے سفر کا سحر توڑتی اک خوبصورت اور مترنم آواز
چل بئی کاکا سیٹ اگے کر
یہ آواز آپکو ہر طرح کے لہجے میں سننے کو ملے گی کہیں انکساری سے بھرپور لہجہ میں
جناب سنیئے اگر زحمت نہ ہو تو سیٹ تھوڑی آگے کیطرف سرکا لیجیئے
اب اگر آپنے اس آواز سے اختلاف کی کوشش کی تو نتائج کے آپ خود ذمہ دار ہونگے۔ کہ کب یہ انکساری کا لبادہ اتار کر آپکو اپنی خاندانی رموز سے آگاہی دینا شروع کر دے۔ اور آپکی مضمحل طبیعت اس اخلاقیات کے بوجھ کی تاب نہ لاسکے۔ کہیں پر یہ آواز آپکو یوں سنائی دے گی کہ
آپ سیٹ آگے کرتے ہیں اپنی
گویا اگر آپنے سیٹ آگے نہ کی جو کہ آپکا فرض عین ہے تو یہ محترم آپکو سیٹ سمیت اٹھا کر بس سے باہر پھینک دیں گے، تاہم یہ تاثر انکی زبان سے زیادہ انکی جسمانی زبان سے ظاہر ہوتا ہے۔ اب آپ سیٹ تو آگے کریں گے ہی پر اگرکبھی پلٹ کر دیکھنے کا اتفاق ہو تو یہ صاحب اپنی سیٹ پیچھے والے کی گود میں لٹا کر لیٹے ہونگے۔ اور وہ بخت برگشتہ بھی اگر اسی خواہش کا اظہار کر بیٹھے تو سیٹ پیچھے کرنے کے حق میں موصوف کی تصریحات سننے لائق ہوتی ہیں۔ مگر وہ ہٹ دھرم اگر اپنی اس فرمائش پر مصر رہے تو یہ صاحب آپ ہی کو مخاطب کر کے کہیں گے کیسے کیسے جاہل لوگ آجاتے ہیں سفر کرنے۔ اب بھلا کوئی تیرہ گھنٹے گوتم بدھ کیطرح بیٹھا رہ سکتا ہے؟ اور آپکی طرف ایسی تائید طلب نظروں سے دیکھیں گے کہ وہ پانچ منٹ پہلے والا جاہل یہ نہ تھے کوئی اور تھا۔ اور آپ گوتم بدھا کے آسن میں جوگی کا روپ دھارے اپنا متیرے جیسا سر ہلاتے رہیں گے۔
کچھ لوگ آپکی معلومات میں اضافہ بھی کریں گےکہ
دیکھیئے جناب میں تنگ ہو رہا ہوں اب آپ کو سیٹ آگے کرنا ہی پڑے گی۔
اور آپ ان احکامات نما معلومات کے آگے سر تسلیم خم کرتے بقیہ سفر جناب بدھا کے آسن میں کرتے نظر آئیں گے۔ یوں بھی کمر سیدھی کر کے بیٹھنا اگرونومکس کی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ میرا آپکو مشورہ یہی ہے کہ سفر سے پہلے آپکو یوگا کے آدھے اور پورے کنول کے آسن پر مکمل عبور ہونا چاہیئے۔
اک دفعہ میرے پیچھے بیٹھے بزرگ نے حکم نما عرضی میرے گوش گزاری کے جناب سفر یوں کٹتا نظر نہیں آتا۔ آپکی مدد درکار ہے۔ میں فورا بزرگوار کی نیت خوشگوار بھانپ گیا اور دست بستہ عرض کی کہ آپ میری سیٹ پر تشریف لے آئیے سفر بھلا کٹے گا۔ وہ سادہ منش آدمی میری اس قبیح پیشکش کی تہہ تک نہ پہنچ پایا اوراندرونی مسرت کو چھپاتے ہوئےچہرے پر اک زبردستی کی انکساری لاتے ہوئے مجھے کہنے لگا ناحق آپکو تکلیف ہوگی۔ میں نے عرض کی قبلہ تکلیف کیسی؟ اب جب سرکار کرسی پر پدھار چکے اور سیٹ کو عزت سے نوازنے کیبعد ضعف کمر کے باعث ذرا دراز ہونے لگے تو میں نے دست بستہ عرض کی کہ کچھ یاد بھی ہے یہ قول کسکا تھا؟ اب تو وہ صاحب بہت جزبز ہوئے اور خشمگیں نگاہوں سے مجھے گردن گھما کر دیکھتے ہوئے بولے۔ اماں تو یہ چال تھی آپکی! میں شرمندگی سے بولا جناب گستاخی معاف سہواً ایسا ہو گیا۔ بقیہ مسافر خوب محظوظ ہوئے ۔ اک اور نے اس منظر سے عبرت پکڑی اور اپنی فرمائش سے دستبردار ہوا اور اسکے آگے والا بلاوجہ میرا شکرگزار ہوا۔ اسکے بعد تو یہ حربہ بہتوں پر آزمایا اور ہمیشہ اکسیری پایا۔
اب چونکہ ہر کہانی کا اک اخلاقی سبق ہوتا ہے اور یہ کالم نما کہانی بناء اخلاقی سبق کے ختم ہو گئی تو قارئین پر اچھا اثر نہ پڑے گا۔ اسلیئے اخلاقی سبق پیش ہےکہ آپکو ذہن فطین پر زور نہ دینا پڑے۔
اخلاقی سبق: ہر اک کو چاہیئے کہ دوسرے کا خیال رکھے۔ نہ تو پیرو کا ایمان السفرسقر کے مقولے پر کامل کرنے کی کوشش کرے اور نہ پیشرو کی دم پر اسقدر پاوں رکھیئے کہ وہ سفر سے اوازار نظر آئے۔
نوٹ: اخلاقی سبق پر عملدرآمدی کی صورت میں نتائج کا راقم ذمہ دار نہیں کیونکہ عین ممکن ہے مشار الیہ نے یہ اخلاقی سبق نہ پڑھ رکھا ہو۔
نوآموز ہونے کے سبب اگر کچھ خامیاں اور کوتاہیاں ہو گئیں ہوں تو درگذر فرمایئے گا۔ اور گر کوئی دوست دوران سفر اس قسم کی حرکتیں کرنے کا عادی ہو تو اس سے پیشگی معذرت