مدت ہوئی ہم نے شرمندہ ہونا چھوڑ دیا۔آسی بھائی کی نظر کا میں بھی قائل ہوں۔ ۔مجھ میں یہ صلاحیت بھی نہیں، اور نہ اتنا صبر کہ اطمینان ست گھنٹوں غور کروں ایک ایک شعر پر۔ اور بھی کام ہیں دنیا میں اصلاحِ سخن کے سوا
شعر 4 اور 8 میں ہی زمین کا مسئلہ ہے، باقی اشعار میں نہیں۔
بہت بہت شکریہ استاد محترم ۔۔۔۔۔۔۔ کہ جو اُس نے کہا ۔۔۔۔دراصل شعر کہنے کا عمل تین حصوں پر مشتمل ہے، شعر کہنا، شعر بنانا اور شعر توڑنا اور انکی ترتیب اس ترتیب سے بالکل الٹ ہے جس ترتیب سے میں نے انہیں لکھا ہے، اور وجہ یہ کہ ہر شاعر فوری طور پر شعر کہنے پر پہنچتا ہے اور بے وزن شعر کہہ کر خواہ مخواہ تنقید کا سامنا کرتا ہے، حالانکہ یہ سارا عمل، ایک شاعر کیلیے، شعر توڑنے سے شروع ہوتا ہے، جب کسی کو شعر توڑنا آ جاتا ہے تو ایک درمیانی عرصہ آتا ہے جس میں وہ شعر 'بناتا' ہے اور اسی کو مشقِ سخن کہا جاتا ہے اور جب کسی شاعر کو شعر کہنے میں درک حاصل ہو جاتا ہے تو پھر وہ جو شاعری کرتا ہے اسی کو صحیح معنوں میں 'شاعری' کہا جاتا ہے پھر اسکے ذہن میں شعر کا وزن نہیں ہوتا بلکہ خیال آفرینی ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد وارث
مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ کیا بڑے بڑے شعراء پہلے سوچتے ہیں کہ ہم نے کس بحر میں غزل کہنی ہے یا پہلے غزل جو کہ آمد ہو وہ اسی طرح لکھ کر بعد میں علم عروض کا استعمال کر کے اس غزل کو بحر میں لاکر اس کا وزن درست کیا جاتا ہے؟
بہت بہت شکریہ استاد محترم ۔۔۔
یہ ہے اصل نکتہ آفرینی ۔۔۔ ماشا اللہ ۔۔۔
اور آپ نے بلکل صحیح اندازہ لگایا ۔۔۔ میری ترتیب ہمیشہ الٹی ہی رہی ہے ۔۔
اب انشا اللہ اس نکتے کو ذہن میں رکھ کر مشق کیا کرونگا۔۔۔
جزاک اللہ ۔۔۔۔
اساتذہ اکرام کی خدمت میں
۔۔
درست املاء یوں ہو گی:
اساتذہء کِرام کی خدمت میں
۔۔
اساتذہء کِرام ۔۔ مرکب توصیفی ہے، اس کے اجزاء ہیں:
استاذ (ج: اساتذہ) موصوف ۔۔ ہمزہ (زیر بصورتِ ہمزہ، بوجہ ہ) علامتِ صفت ۔۔ کَریم (ج: کِرام : کاف مکسور کے ساتھ) صِفَت
یہ فارسی طریقہ ہے اور اس میں عربی اور فارسی اسماء جمع کئے جا سکتے ہیں۔
۔۔
مزید مثالیں:
گُلِ تر، دلِ ناشاد، شَبِ طویل، دیدہء بینا، حکایاتِ خونچکان، دردِ لادوا، مشامِ تیز، بندہء مولاصفات، آہِ نارسا، بحرِ ناپیداکنار، نوائے تازہ، جولانیء طبع، مےء لالہ فام، موئے مُشکین؛ وغیرہ۔
۔۔
سر کیا اب یہ عروضی اور معنوی سطح پر درست ہے؟سب سے پہلے ۔۔ اچھی بات ہے کہ آپ نے بحر نے ارکان لکھ دیے۔
اسی وزن کو میں "فاعلن فاعلتن فاعلتن فاعلتن" لکھا کرتا ہوں۔ اس میں آخری "فاعلتن" کے مقابل "مفعولن" آ سکتا ہے۔
1.
چل ترے خوابوں میں کچھ رنگ نیا لاتے ہیں
مسندِ حور کی، آ سیر کرا لاتے ہیں
غور فرمائیے کہ یہاں "خواب" پورا پڑھا جا رہا ہے۔ واو گرا دیا، نون تو ویسے ہی غنہ ہے؛ یعنی ٹیکنیکی حوالے سے ٹھیک ہو گیا۔ مگر صوتی ملائمت جاتی رہی۔
چل ترے خواب میں کچھ ۔۔ اس کو دیکھ لیجئے، اگر آپ کے معانی مقصود کو پورا کرتا ہے تو اپنا لینے میں کوئی ہرج نہیں۔
مسند کا مفہوم مقام (مرتبہ) ہے، مقام (مکان، جگہ) نہیں۔ سیر تو جگہ کی ہوتی ہے، مراتب کی نہیں ہوتی۔
مضمون مجھ پر نہیں کھلا، یا پھر دونوں مصرعوں میں فاصلہ نہیں پاٹ سکا۔ خود ہی دیکھ لیجئے گا۔
سر کیا اب یہ عروضی اور معنوی سطح پر درست ہے؟
تجھ کو بستی میں خوابوں کی گھما لاتے ہیں
رنگ اور نور بھری سیر کرا لاتے ہیں
اسی پر میں بھی متذبذب تھا ۔۔۔خواب میں واو معدولہ ہے صاحب۔ اس کی صوتیت "خاب" ہے، "خ وا ب" نہیں۔ اور ہاں، اس کو عربی کے لفظ "خاب" (وہ رسوا ہوا، وہ مار کھا گیا) سے بھی خلط ملط نہیں کرنا۔
۔
استاد محترم ۔۔۔2.
دیر سے آ کے بھی جانے کی ہے جلدی اس کو
روکنے کو اسے گھنگھور گھٹا لاتے ہیں
میرا اپنا خیال ہے کہ "جانے کی جلدی" کو "دیر سے آ کے" سے مشروط کرنا ہے تو دوسرا مصرع اس امر پر زور دے۔ روکنے کا عمل یا ارادہ یا خواہش "دیر سے" اور "دیر کے" آئے ہوئے، دونوں صورتوں میں یکساں ہوتا ہے۔ دوسری بات کہ "اے ابرِ کرم اتنا نہ برس" مضمون کو کوئی نیا ڈھنگ دیجئے۔
استاد محترم ۔۔۔
خواہشِ دید ہمیں ، جانے کی جلدی ان کو
قید ہوں پل یہ، مصور کو بلا لاتے ہیں