داغ چل دئیے شکل دکھا کر وہ کوئی کیا دیکھے - داغ دہلوی

کاشفی

محفلین
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)

چل دئیے شکل دکھا کر وہ کوئی کیا دیکھے
دیکھنے کا یہ مزا ہے کہ سراپا دیکھے

کیا سریلی ہیں صدائیں تری کیا جلوہ ہے
سننے والا یہ سنے ، دیکھنے والا دیکھے

وہ دوپٹے کا سرکنا ، وہ کسی کا کہنا
آنکھیں پھوٹیں جو کوئی سینہ ہمارا دیکھے

بے سبب جس نے نکالا مجھے اپنے گھر سے
کاش وہ آکے مرا دم بھی نکلنا دیکھے

دوست دشمن کو وہ کیا جانیں ابھی کم سن ہیں
ہم سے پوچھے کوئی بیٹھے ہیں زمانا دیکھے

بات وہ کیجئے جس بات کو سب دل سے سنیں
کام وہ کیجئے جس کام کو دنیا دیکھے

جس نے دیکھا ہو نہ عاشق کو مصیبت میں کبھی
دیکھ کر پانوں ترا ، منہ نہ کسی کا دیکھے

پہلے تو شوق سے منگوائی ہماری تصویر
پھینک کر پھر یہ کہا کوئی اسے کیا دیکھے

گو حسیں لاکھ ہوں دنیا میں مگر ، داغ کبھی
دیکھ کر پاؤں ترا ، منہ نہ کسی کا دیکھے
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت خوب! شکریہ کاشفی صاحب۔ ایک مصرع میں ٹائپو ہے۔ اسے درست کر دیں۔
پہلے تو شوق سے منگوائی ہماری تصویر
پھینک کر پھر ی کہا کوئی اسے کیا دیکھے
 

فرخ منظور

لائبریرین
کاشفی صاحب۔ شاید یہاں "یہ" ٹائپ ہونے سے رہ گیا تھا۔ آپ نے ی ہی اڑا دی۔ میں نے تو ی کے ساتھ ہ لگانے کا اشارہ کیا تھا۔ لیکن اگر کتاب میں ایسے ہی ہے تو پھر ٹھیک ہوگا۔
 

کاشفی

محفلین
کاشفی صاحب۔ شاید یہاں "یہ" ٹائپ ہونے سے رہ گیا تھا۔ آپ نے ی ہی اڑا دی۔ میں نے تو ی کے ساتھ ہ لگانے کا اشارہ کیا تھا۔ لیکن اگر کتاب میں ایسے ہی ہے تو پھر ٹھیک ہوگا۔
تصحیح کے لیئے بہت شکریہ فرخ منظور صاحب! خوش رہیئے۔۔
 
Top