چل سکُولے چلیے دوویں

Ali Baba

محفلین
معاف کیجیے گا علی بابا! اپنا شمار ان لوگوں میں کروائیے جو اچھے پہلوؤں پہ توجہ مرکوز کرتے ہیں۔
اگر کسی لفظ/الفاظ کا درست ترجمہ نہیں ہو سکا ہوتا تو لوگ بتا دیتے ہیں اور انھیں شامل/درست کر لیا جاتا ہے۔ یہ کوئی ایسا بڑا مسئلہ تو نہیں۔
بہرحال کسی کلام کو تعریف کی سند عطا کرنے کا محمد خلیل الرحمٰن بھائی کا یہ خاص انداز ہے۔ یہ ان کی محبت، خلوص اور بڑا پن ہے۔ ورنہ اتنا وقت دینا اور اتنی محنت کون کرتا ہے!:)
معاف کیجیے گا، یہ شمار وغیرہ کی فکر دوسرے کیوں کریں؟

باقی میں نے بھی اپنے انداز میں نشاندہی ہی کی تھی کوئی پاک بھارت جنگ تو نہیں چھیڑ دی تھی۔
 
جناب عبدالقیوم چوہدری صاحب آپ کی اس کسر نفسی سے فیض احمد فیض یاد آ گئے۔
:)
یہی کچھ اس نظم کے ترجمے کا چکر ہے، نہ جانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ مترجم کو ان پنجابی الفاظ جو نظم میں آئے ہیں، کا مطلب ہی علم نہیں:
برادرم، آپ کی رائے مناسب ہے لیکن لطف تب تھا جب اس مراسلے کے اندر ہی آپ اُن پنجابی الفاظ کا مطلب بھی لکھ دیتے تو محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب مناسب تدوین فرما کر ترجمے کو مزید بہتر کر پاتے۔ :)
 

Ali Baba

محفلین
:)

برادرم، آپ کی رائے مناسب ہے لیکن لطف تب تھا جب اس مراسلے کے اندر ہی آپ اُن پنجابی الفاظ کا مطلب بھی لکھ دیتے تو محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب مناسب تدوین فرما کر ترجمے کو مزید بہتر کر پاتے۔ :)
میری کیا مجال بھائی جی کہ میں استادوں کے کلام کو ہاتھ لگاؤں۔ منظوم ترجمہ کرنے والا یہی جرات تو کر رہا ہوتا ہے۔

ویسے کسی بھی منظوم ترجمہ کرنے والے سے پوچھ لیں وہ یہی فرمائیں گے کہ ترجمہ ہو ہی نہیں سکتا، جب ہو ہی نہیں سکتا تو کرنا ضرور ہے؟

آپ نے کچھ لفظوں کی بات ہے، واقعی ان کا ترجمہ بھی مترجم سے نہیں ہو سکا، جب صرف لفظیات کا ترجمہ ہی نہیں ہو سکتا اور ترکیبات کا بھی نہیں ہو سکا تو مترجم(یا مترجمان) خود ہی سوچے (سوچیں) کہ کیفیات کا ترجمہ کیسے ہوگا، احساسات کا کیسے ہوگا، خیالات کا کیسے ہوگا؟

باقی بھائی جی، اصل نظم اور منظوم ترجمہ سائیڈ بائی سائیڈ پڑھ کر دیکھ لیں اور خود فیصلہ کریں کہ کیسا بے کیف ترجمہ ہے۔ وہ کیفیت جو اصل نظم کے انگ انگ اور لفظ لفظ سے ٹپک رہی ہے اور دل کو لبھا رہی ہے وہ سارے منظومے میں بھی کہیں نہیں ہے۔

اور آخر میں یہ کہ کھیت کی پگڈنڈی پر چادر ڈال کر بیٹھنا کجا، اور یہ ترجمہ کجا:

گاؤں کے باہر کھیت میں چھُپ کر
چادر اُوپر تان کے بیٹھیں

کسی کھیت میں چادر تان کر، چھپ کر یوں بیٹھیں گے تو شام تک گاؤں میں ہنگامے در ہنگامے برپا ہو جائیں گے۔ :)
 
آخری تدوین:

bilal260

محفلین
ماشاء اللہ بہت پر لطف بلکہ دل چسپ نظم ہے۔
شکریہ۔
اب وہ پہلے جیسا دور نہیں رہا ۔
یہ وقت ہم پر بھی گزرا ہے ۔تختی دھو کر اس پر گاچی لگاتے تھے تب بہت ہی کم عمر اور معصوم ہوا کرتا تھا۔
آخر بچے معصوم ہوتے ہیں پھر زمانے کی گردشیں اس کو جوان بلکہ ذمہ دار بنا دیتی ہے۔
شکریہ پرانے زمانے میں پہنچا کر یادیں تازہ ہو گئی ماشاءاللہ ۔
 
میری کیا مجال بھائی جی کہ میں استادوں کے کلام کو ہاتھ لگاؤں۔ منظوم ترجمہ کرنے والا یہی جرات تو کر رہا ہوتا ہے۔
اس مراسلے میں کہیں بھی استادوں کے کلام کو ہاتھ لگانے کی مجال وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :question:
اس مراسلے کے اندر ہی آپ اُن پنجابی الفاظ کا مطلب بھی لکھ دیتے

پانی وچ مدھانی۔ :):):)
ویسے کسی بھی منظوم ترجمہ کرنے والے سے پوچھ لیں وہ یہی فرمائیں گے کہ ترجمہ ہو ہی نہیں سکتا، جب ہو ہی نہیں سکتا تو کرنا ضرور ہے؟

آپ نے کچھ لفظوں کی بات ہے، واقعی ان کا ترجمہ بھی مترجم سے نہیں ہو سکا، جب صرف لفظیات کا ترجمہ ہی نہیں ہو سکتا اور ترکیبات کا بھی نہیں ہو سکا تو مترجم(یا مترجمان) خود ہی سوچے (سوچیں) کہ کیفیات کا ترجمہ کیسے ہوگا، احساسات کا کیسے ہوگا، خیالات کا کیسے ہوگا؟

باقی بھائی جی، اصل نظم اور منظوم ترجمہ سائیڈ بائی سائیڈ پڑھ کر دیکھ لیں اور خود فیصلہ کریں کہ کیسا بے کیف ترجمہ ہے۔ وہ کیفیت جو اصل نظم کے انگ انگ اور لفظ لفظ سے ٹپک رہی ہے اور دل کو لبھا رہی ہے وہ سارے منظومے میں بھی کہیں نہیں ہے۔

اور آخر میں یہ کہ کھیت کی پگڈنڈی پر چادر ڈال کر بیٹھنا کجا، اور یہ ترجمہ کجا:

گاؤں کے باہر کھیت میں چھُپ کر
چادر اُوپر تان کے بیٹھیں

کسی کھیت میں چادر تان کر، چھپ کر یوں بیٹھیں گے تو شام تک گاؤں میں ہنگامے در ہنگامے برپا ہو جائیں گے۔ :)
 
Top