چمن میں نہ گُل ہے، نہ حسنِ نظر ہے۔۔۔۔ عبدالعزیز راقم

مغزل

محفلین
چمن میں نہ گُل ہے نہ حُسنِ نظر ہے
نہ اب داغ ہے وہ نہ اب وہ جگر ہے
واہ اپنی ہئیت میں مکمل مطلع ہے، خالصتاً کلاسیکی رنگ لیے ہوئے داخلی کیفیات کا آئنہ ہے ، شعر علامتی تناظر میں دیکھا جائے تب بھی مفہوم مکمل ہے ، مصرع ثانی میں جگر اور داغ کو شعراء کے حوالے سے دیکھیں تب بھی شاعر کی اپنی کیفیت ہے اور موجودہ دور میں شعرو ادب میں جو تنزلی نظر آرہی ہے اس جانب اشاریہ ہے ،خاص بات اس کا سہل ہونا ہے کہ قاری کو دماغ زیادہ استعمال نہیں کرنا پڑتا ، غزل میں یہ خوبی اپنی جگہ مسلم ہے مگر یہ اس کی خرابی بھی ہوسکتی ہے کہ شاعر قاری کی سطح پر اپنے منصب سے نیچے اتر آئے ، بہرحال یہ میر ، داغ و جگر کے مکتب کا فیض ہے ، میں انفرادی طور پر غالب کی طرح سوچتا ہوں کہ شاعر کا کام اپنے قاری کو اپنی سطح پر لانا ہے ۔شعراپنی معاملت میں مکمل ہے ، اوزان کے حوالے سے بات ہوہی چکی ،سو قلم کی باگ موڑتا ہوں۔
اگر ہے شکایت تو بس اک ذرا سی
مٹایا ہے جس نے وہی بے خبر ہے
جمالِ تصوّر بھی ہے اس کے دم سے
مری شاعری بھی اسی کا اثر ہے
ہر ( دو) شعر اکہرے پن کا شکار ہیں ، کلاسیکی روایات میں ایسے شعر کثرت سے ملتے ہیں، خصوصیت : دل میں چٹکیاں لیتا ہوا شعر ہے ،روایت میں اس کی موجودگی سے قطع نظر شعر اپنے مضمون کے حساب سے مکمل ہے اور پر تاثر ہے ،دونوں شعروں کی جو اچھائی ہے وہی ان کی خرابی بھی ہے ،کہ بہت بار لکھا گیا اس موضوع کو ،۔
پیاسا رہا دل، پیاسی نظر بھی
نہیں آب یاں پر، فریبِ نظر ہے
پیاسی کے حوالے سے میں ابنِ سعید ( سعود بھائی) اورفاتح بھائی کا ہی ہمنوا ہوں۔درج بالا شعر بھی سہل ہے ، قباحت محض یہ ہے کہ سہلِ ممتنع میں عموماً کوئی بہت بڑا شعر دیکھنے کو نہیں ملتا ، وجہ یہ نہیں کہ شعر ہونہیں سکتا ، بات اتنی سی ہے کہ سہلِ ممتنع میں اشعار ہمارے متاخرین متوسطین کے ہاں اتنی کثرت سے ملتے ہیں کہ مطالعے کے بعد کم از کم مجھ ایسے نازاں برجہل کے لیے سوچنا بھی کفر ہے ، ولی دکنی کا یہ کہنا اپنی جگہ مسلم کہ ’’ تاقیامت کھلا ہے بابِ سخن ‘‘ ۔ مذکورہ شعر مکمل ہے ، بظاہر کوئی عیب نہیں ہے ،۔بہر کیف چو ں کہ یہ آپ کے قلم سے رواں ہے اور ’’روا ‘‘ ہے سو مبارکباد ، گر قبول افتد زہے عز و شرف
نہیں ہوش رہتا پہنچ کر وہاں پر
ہے کعبہ کدھر کو، مدینہ کدھر ہے
بہت خوب ، داخلی کیفیات کا آئینہ شعر ہے ، ایک غلطی جو ہم اکثر کرتے ہیں ، کہ ’’ وہاں ، یہاں ‘‘ کے ساتھ ’’پر ‘‘ استعمال کرتے ہیں ، دونوں الفاظ میں ’’ سمت کا تعین موجود ‘‘ ہے سو ’’ پر ‘‘ کی ضرورت نہیں رہتی ، چوں کہ عام ہے اس لیے زیادہ بحث نہیں رہتی ، مگر ہم ایسے لوگوں کو اس طرف بھی غور کرنا چاہیے ،۔ اسی طرح ہم عام طور پر ’’ ساتھ ‘‘ کے ساتھ ’’ میں ‘‘ بھی لکھ دیتے ہیں یہ بھی فصحاء کے نزدیک درست نہیں ، ۔۔
رقیبوں نے اُس کو یہ مُژدہ سنایا
تمھارا یہ تیرِ نظر کارگر ہے
آہا، خوب، ویسے رقیب کی نفسیات میں ایسا باندھا نہیں گیا، یہ اس شعر کی خوبی ہے ، کہ رقب ضمیر ِ موصولہ کے حوالے بھی ، محبوب کو شہہ دیتا نظر آتا ہے ، روایت میں رقیب کو یوں باندھنا فیض اور عدم سے ہی منسوب ہے ، عدم کا شعر ملاحظہ کیجے ’’ دو ہی باذوق آدمی ہیں عدم --- میں ہوا ، یا مرا رقیب ہوا ‘‘ ( عبدالحمید عدم)
خموشی طریقِ سفر تو نہیں ہے
کرے گفتگو بھی اگر ہم سفر ہے
اچھا ہے ، مصرع ثانی میں ’’ کرے ‘‘ محلِ‌نظر ہے ، کرختگی محسوس ہوتی ہے ، ’’ رہے گفتگو بھی ، اگر ہم سفر ہے ‘‘ ہوتا تو نفسِ مضمون پر بھی حرف نہ آتا اور کرختگی بھی دور ہوسکتی تھی۔ ایک عیب اور پیدا ہورہا کہ ’’ تقابلِ ردیفین ‘‘ ہورہا ہے ۔ دونوں مصرعوں میں ردیف آگئی ہے ، ایسا ہونا فصحاء کے نزدیک معائبِ شعر ی میں شمار ہوتا ہے ، مناسب خیال کیجے تو دیکھ لیجے گا۔
چلے طور پر ہیں تکلُّم کی خاطر
قدم بھی وہی ہیں، وہی رہ گُزر ہے
شعر تلمیح کے رنگ میں ہے ،مگر صرف منظوم بیان ہوکر رہ گیا ہے ، دیکھیے اس کو نثر کرکے دیکھتے ہیں ’’چلے طور پر ہیں تکلُّم کی خاطرقدم بھی وہی ہیں، وہی رہ گُزر ہے ‘‘ ۔۔ سوال پیدا ہوتا کہ ’’ تو ؟؟ ‘‘ کیا ہوا ؟؟ ابہام شعر کا حسن ہوتا ہے ، لیکن مہمل کے قریب ہوجائے تو شعر کا حسن جاتا رہتاہے ، جو قارئین کوہِ طور کے واقعے سے واقفیت رکھتے ہیں وہ تو سمجھ جائیں گے کہ موسٰی کے ساتھ کیا ہوا، مگر شعر میں یہ ظاہر نہیں کہ کیا ہوا ، اگر اٹکل پچو کے بعد ہم کشید کر بھی لیں‌تو معاذ اللہ یہ خیال ابھرے گا کہ شاعر کہیں موسیٰ کی ہمسری تو نہیں کرنے لگے ۔
نہ فن کار ہو تم، نہ شاعر ہو راقم
وہی گھر تمھارا، وہی بام و در ہے
مقطع دولخت ہورہا ہے ، مصرع اولیٰ انکسار پر مبنی ہے ، تو ثانی اعلان ( یا تسلی) پر، پھر بام و در مترادف میں نہیں کہ ’’ ہے ‘‘ روا ہو، یہ مرکب ہوگیا،اب ردیف جمع کے صیغہ کی متقاضی ہے ، یہاں ردیف غلط ہورہی ہے ، زبردستی معنی کشید کیے جائیں تو یہ معنی نکلیں گے کہ شاعر اور فنکار گھر اور بام ودر بدل لیتا ہے ، ۔ امید ہے مجھ کوئی بات بھی طبعِ راقم پر گراں گزرے تو صرفِ نظر کیجے گا، واضح رہے کہ یہ محض میری استعداد پر مشتمل مراسلہ / رائے ہے ، دیگر صاحبانِ فن کیا کہتے ہیں ،میں بھی اسی ضمن میں منتظر ہوں ۔والسلام
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ راقم مجھے محبت سے یاد کرنے کا، صبح آیا تھا لیکن پھر وائر لیس نیٹ ورکنگ غائب ہو گیا، پھر ہم لوگ گھومنے چلے گئے تو ابھی ابھی آئے ہیں اور اب یہ دھاگا پہلی بار دیکھا ہے۔
غزل میں پیاس/پیاسی کے علاوہ فنی غلطی تو کوئی نہیں، عروض کے حساب سے درست ہے۔ لیکن زبان و بیان کے لحاظ سے سدھار کی گنجائش ہے۔ موضوعات میں تنوع نہیں ہے، شاید اس کی وجہ یہی رہی ہو کہ کلاسیکی شاعری کا مطالعہ آپ نے بہت کیا ہے، ایسا لگتا ہے۔ جو مستحسن ہے۔ لیکن مفہوم میں بھی اساتذہ کی نقل کرنا مستحسن نہیں۔ بہر حال کوششیں جاری رکھیں۔ اصلاح کی گنجائش تو ہر کلام میں رہتی ہے، سوائے اللہ کے کلام کے۔
 

راقم

محفلین
شکریہ راقم مجھے محبت سے یاد کرنے کا، صبح آیا تھا لیکن پھر وائر لیس نیٹ ورکنگ غائب ہو گیا، پھر ہم لوگ گھومنے چلے گئے تو ابھی ابھی آئے ہیں اور اب یہ دھاگا پہلی بار دیکھا ہے۔
غزل میں پیاس/پیاسی کے علاوہ فنی غلطی تو کوئی نہیں، عروض کے حساب سے درست ہے۔ لیکن زبان و بیان کے لحاظ سے سدھار کی گنجائش ہے۔ موضوعات میں تنوع نہیں ہے، شاید اس کی وجہ یہی رہی ہو کہ کلاسیکی شاعری کا مطالعہ آپ نے بہت کیا ہے، ایسا لگتا ہے۔ جو مستحسن ہے۔ لیکن مفہوم میں بھی اساتذہ کی نقل کرنا مستحسن نہیں۔ بہر حال کوششیں جاری رکھیں۔ اصلاح کی گنجائش تو ہر کلام میں رہتی ہے، سوائے اللہ کے کلام کے۔

محترم اساتیذِ کرام، السلام علیکم!
اپنی پہلی غزل میں بہت سی ترامیم و تبدیلیاں کرنے کے بعد دوبارہ بھیج رہا ہوں۔
ملاحظہ فرما کر دیکھیے کہ پہلے کی نسبت کچھ بہتر ہوئی ہے کہ نہیں؟

چمن میں نہ گُل ہے نہ حُسنِ نظر ہے
نہ اب داغ ہے وہ نہ اب وہ جگر ہے

کرے کیا شکایت بھلا اس سے کوئی
مٹا کر ہمیں وہ ابھی بے خبر ہے

اے ناداں مسافر، یہ جیون ہے صحرا
نہیں آب یاں پر، فریبِ نظر ہے

بھلا ہوش کیسا، جو موجود ہوں وہ
کہاں مَیکدہ ہے، کدھر بام و در ہے

رقیبوں نے اُس کو یہ مُژدہ سنایا
تمھارا یہ تیرِ نظر کارگر ہے

خموشی تو جائز نہیں ہے سفر میں
رہے گفتگو بھی اگر ہم سفر ہے

بھلا بھی دو راقم، وہ باتیں پرانی
تمھارے نصیبوں میں یہی چشم تر ہے
 

مغزل

محفلین
بابا جانی ، بقول ہمارے چچا استاد ( وقار صدیقی اجمیری) کے :
اب تو آجا کہ ترا راستہ تکتے تکتے ------ میری آنکھوں میں کھٹکنے لگی بینائی بھی۔
 
ایک سوال ہے۔ ۔ وہ یہ کہ 'چمن میں نہ گل ہے نہ حسن نظر ہے' اس میں پہلا 'نہ' درست ہے یا غلط؟ وزن کے اعتبار سے نہیں بلکہ محاورے کے اعتبار سے۔
 

الف عین

لائبریرین
پہلی بات۔ نہ کا استعمال جیسا کہ محمود مغل نے کہا درست ہے۔
اس غزل کو واقعی میں بھول گیا تھا۔
اس میں محض ایک دو اشعار کھٹکتے ہیں یا دو ایک الفاظ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

کرے کیا شکایت بھلا اس سے کوئی
مٹا کر ہمیں وہ ابھی بے خبر ہے
یہاں ’ابھی‘ میں کچھ کمی ہے، کیا ’ابھی تک‘ مراد ہے۔ ورنہ بھرتی کا ہے۔

اے ناداں مسافر، یہ جیون ہے صحرا
نہیں آب یاں پر، فریبِ نظر ہے
یہ شعر پسند نہیں آیا، زبان و بیان کے لحاظ سے، کئی چیزیں کھٹک رہی ہیں۔
اے ناداں میں ’اے‘ میں ‘ے‘ کا گرنا
جیون جیسے ہندی لفظ کے ساتھ فارسی کا صحرا
آسان سے ہندی کے شعر میں آب لانا، جہاں پانی لایا جا سکتا تھا
اور یاں‘ برائے ‘یہاں‘ آج کل تقریبا متروک ہے۔ خاص کر جب کچھ اور ممکن ہو۔

رقیبوں نے اُس کو یہ مُژدہ سنایا
تمھارا یہ تیرِ نظر کارگر ہے
’اس کو‘۔۔ وہ کون؟ کیونکہ دوسرے مصرع میں ’تمھارا تیر‘ ہے۔

خموشی تو جائز نہیں ہے سفر میں
رہے گفتگو بھی اگر ہم سفر ہے
’اگر ہم سفر ہے‘ کا مطلب واضح نہیں۔

بھلا بھی دو راقم، وہ باتیں پرانی
تمھارے نصیبوں میں یہی چشم تر ہے
دوسرا مصرع تو بحر سے خارج ہو گیا۔
یہ تو اسقام کی نشان دہی ہو گئی۔ لیکن راقم، میں یہ پسند کروں گا تمہارے سلسلے میں کہ متبادل مصرعوں کی مجھ سے امید نہ رکھو، خود کوشش کرو، کیونکہ تم اچھا کہہ سکتے ہو۔
 
Top