مغزل
محفلین
واہ اپنی ہئیت میں مکمل مطلع ہے، خالصتاً کلاسیکی رنگ لیے ہوئے داخلی کیفیات کا آئنہ ہے ، شعر علامتی تناظر میں دیکھا جائے تب بھی مفہوم مکمل ہے ، مصرع ثانی میں جگر اور داغ کو شعراء کے حوالے سے دیکھیں تب بھی شاعر کی اپنی کیفیت ہے اور موجودہ دور میں شعرو ادب میں جو تنزلی نظر آرہی ہے اس جانب اشاریہ ہے ،خاص بات اس کا سہل ہونا ہے کہ قاری کو دماغ زیادہ استعمال نہیں کرنا پڑتا ، غزل میں یہ خوبی اپنی جگہ مسلم ہے مگر یہ اس کی خرابی بھی ہوسکتی ہے کہ شاعر قاری کی سطح پر اپنے منصب سے نیچے اتر آئے ، بہرحال یہ میر ، داغ و جگر کے مکتب کا فیض ہے ، میں انفرادی طور پر غالب کی طرح سوچتا ہوں کہ شاعر کا کام اپنے قاری کو اپنی سطح پر لانا ہے ۔شعراپنی معاملت میں مکمل ہے ، اوزان کے حوالے سے بات ہوہی چکی ،سو قلم کی باگ موڑتا ہوں۔چمن میں نہ گُل ہے نہ حُسنِ نظر ہے
نہ اب داغ ہے وہ نہ اب وہ جگر ہے
اگر ہے شکایت تو بس اک ذرا سی
مٹایا ہے جس نے وہی بے خبر ہے
ہر ( دو) شعر اکہرے پن کا شکار ہیں ، کلاسیکی روایات میں ایسے شعر کثرت سے ملتے ہیں، خصوصیت : دل میں چٹکیاں لیتا ہوا شعر ہے ،روایت میں اس کی موجودگی سے قطع نظر شعر اپنے مضمون کے حساب سے مکمل ہے اور پر تاثر ہے ،دونوں شعروں کی جو اچھائی ہے وہی ان کی خرابی بھی ہے ،کہ بہت بار لکھا گیا اس موضوع کو ،۔جمالِ تصوّر بھی ہے اس کے دم سے
مری شاعری بھی اسی کا اثر ہے
پیاسی کے حوالے سے میں ابنِ سعید ( سعود بھائی) اورفاتح بھائی کا ہی ہمنوا ہوں۔درج بالا شعر بھی سہل ہے ، قباحت محض یہ ہے کہ سہلِ ممتنع میں عموماً کوئی بہت بڑا شعر دیکھنے کو نہیں ملتا ، وجہ یہ نہیں کہ شعر ہونہیں سکتا ، بات اتنی سی ہے کہ سہلِ ممتنع میں اشعار ہمارے متاخرین متوسطین کے ہاں اتنی کثرت سے ملتے ہیں کہ مطالعے کے بعد کم از کم مجھ ایسے نازاں برجہل کے لیے سوچنا بھی کفر ہے ، ولی دکنی کا یہ کہنا اپنی جگہ مسلم کہ ’’ تاقیامت کھلا ہے بابِ سخن ‘‘ ۔ مذکورہ شعر مکمل ہے ، بظاہر کوئی عیب نہیں ہے ،۔بہر کیف چو ں کہ یہ آپ کے قلم سے رواں ہے اور ’’روا ‘‘ ہے سو مبارکباد ، گر قبول افتد زہے عز و شرفپیاسا رہا دل، پیاسی نظر بھی
نہیں آب یاں پر، فریبِ نظر ہے
بہت خوب ، داخلی کیفیات کا آئینہ شعر ہے ، ایک غلطی جو ہم اکثر کرتے ہیں ، کہ ’’ وہاں ، یہاں ‘‘ کے ساتھ ’’پر ‘‘ استعمال کرتے ہیں ، دونوں الفاظ میں ’’ سمت کا تعین موجود ‘‘ ہے سو ’’ پر ‘‘ کی ضرورت نہیں رہتی ، چوں کہ عام ہے اس لیے زیادہ بحث نہیں رہتی ، مگر ہم ایسے لوگوں کو اس طرف بھی غور کرنا چاہیے ،۔ اسی طرح ہم عام طور پر ’’ ساتھ ‘‘ کے ساتھ ’’ میں ‘‘ بھی لکھ دیتے ہیں یہ بھی فصحاء کے نزدیک درست نہیں ، ۔۔نہیں ہوش رہتا پہنچ کر وہاں پر
ہے کعبہ کدھر کو، مدینہ کدھر ہے
آہا، خوب، ویسے رقیب کی نفسیات میں ایسا باندھا نہیں گیا، یہ اس شعر کی خوبی ہے ، کہ رقب ضمیر ِ موصولہ کے حوالے بھی ، محبوب کو شہہ دیتا نظر آتا ہے ، روایت میں رقیب کو یوں باندھنا فیض اور عدم سے ہی منسوب ہے ، عدم کا شعر ملاحظہ کیجے ’’ دو ہی باذوق آدمی ہیں عدم --- میں ہوا ، یا مرا رقیب ہوا ‘‘ ( عبدالحمید عدم)رقیبوں نے اُس کو یہ مُژدہ سنایا
تمھارا یہ تیرِ نظر کارگر ہے
اچھا ہے ، مصرع ثانی میں ’’ کرے ‘‘ محلِنظر ہے ، کرختگی محسوس ہوتی ہے ، ’’ رہے گفتگو بھی ، اگر ہم سفر ہے ‘‘ ہوتا تو نفسِ مضمون پر بھی حرف نہ آتا اور کرختگی بھی دور ہوسکتی تھی۔ ایک عیب اور پیدا ہورہا کہ ’’ تقابلِ ردیفین ‘‘ ہورہا ہے ۔ دونوں مصرعوں میں ردیف آگئی ہے ، ایسا ہونا فصحاء کے نزدیک معائبِ شعر ی میں شمار ہوتا ہے ، مناسب خیال کیجے تو دیکھ لیجے گا۔خموشی طریقِ سفر تو نہیں ہے
کرے گفتگو بھی اگر ہم سفر ہے
شعر تلمیح کے رنگ میں ہے ،مگر صرف منظوم بیان ہوکر رہ گیا ہے ، دیکھیے اس کو نثر کرکے دیکھتے ہیں ’’چلے طور پر ہیں تکلُّم کی خاطرقدم بھی وہی ہیں، وہی رہ گُزر ہے ‘‘ ۔۔ سوال پیدا ہوتا کہ ’’ تو ؟؟ ‘‘ کیا ہوا ؟؟ ابہام شعر کا حسن ہوتا ہے ، لیکن مہمل کے قریب ہوجائے تو شعر کا حسن جاتا رہتاہے ، جو قارئین کوہِ طور کے واقعے سے واقفیت رکھتے ہیں وہ تو سمجھ جائیں گے کہ موسٰی کے ساتھ کیا ہوا، مگر شعر میں یہ ظاہر نہیں کہ کیا ہوا ، اگر اٹکل پچو کے بعد ہم کشید کر بھی لیںتو معاذ اللہ یہ خیال ابھرے گا کہ شاعر کہیں موسیٰ کی ہمسری تو نہیں کرنے لگے ۔چلے طور پر ہیں تکلُّم کی خاطر
قدم بھی وہی ہیں، وہی رہ گُزر ہے
مقطع دولخت ہورہا ہے ، مصرع اولیٰ انکسار پر مبنی ہے ، تو ثانی اعلان ( یا تسلی) پر، پھر بام و در مترادف میں نہیں کہ ’’ ہے ‘‘ روا ہو، یہ مرکب ہوگیا،اب ردیف جمع کے صیغہ کی متقاضی ہے ، یہاں ردیف غلط ہورہی ہے ، زبردستی معنی کشید کیے جائیں تو یہ معنی نکلیں گے کہ شاعر اور فنکار گھر اور بام ودر بدل لیتا ہے ، ۔ امید ہے مجھ کوئی بات بھی طبعِ راقم پر گراں گزرے تو صرفِ نظر کیجے گا، واضح رہے کہ یہ محض میری استعداد پر مشتمل مراسلہ / رائے ہے ، دیگر صاحبانِ فن کیا کہتے ہیں ،میں بھی اسی ضمن میں منتظر ہوں ۔والسلامنہ فن کار ہو تم، نہ شاعر ہو راقم
وہی گھر تمھارا، وہی بام و در ہے