محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
بھارتی ریاست چندی گڑھ کا ایک شہری ایسا بھی ہے جو اپنے شہر کے لاوارثوں کا وارث اور ہزاروں غریبوں کا مسیحا ہے،جس نےبھوکوں کا پیٹ بھرنے کی خاطر اپنا سارا بچپن گزار دیا اور ’لنگر بابا ‘ کے نام سے پورے شہر میں مشہور ہوگیا۔
یہ چندی گڑھ کے رہائشی 83 سالہ’ جگدیش لال آہوجا‘ہیں جنہوں نےاپنے بچپن کی قربانی صرف اس لیے دی کہ ان کے شہر کا کوئی فرد بھوکا پیٹ نہ سوئے۔
بھارتی اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’ان کے بچپن کے بارے میں سوال نہ کیا جائے، وہ وقت اتنا تکلیف دہ ہے کہ وہ دوبارہ اس کو یاد بھی نہیں کرنا چاہتے۔‘
جگدیش آہوجا پشاور میں پیدا ہوئے اور جس وقت پاکستان معرض وجود میں آیا، ان کی عمر 12 سال تھی۔ انہوں نے بچپن سے ہی سخت محنت کی۔ ان کا نظریہ، یہ تھا کہ جو کچھ بھی اکٹھا کریں یا جائیداد بنائیں اس کی آمدنی سے غریبوں کاپیٹ بھرسکیں۔
جگدیش آہوجا کی جانب سے روزانہ غربیوں کو کھانا کھلانےکا عمل تین دہائیوں سے جاری ہے۔ اسی خوبی کے سبب وہ پورے شہر میں ’لنگر بابا‘ کے نام سے پکارے جانے لگے۔
بھارتی اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے آہوجا کا کہنا تھا کہ انہوں نے 1981میں غریبوں کا کھانا کھلانے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ پھر 2001میں انہوں نےایک لنگر سینٹر کا باقاعدہ آغاز کیا جہاں اب بھی ہر روز غریبوں کو روزانہ کھانا کھلایا جاتا ہے۔
اس سلسلے کو قائم رکھنے کے لیے آہوجا نے اپنی تمام جائیداد ایک ایک کر کے بیچنا شروع کردی تاکہ کوئی بھی انسان خالی پیٹ اپنے بستر پر نہ لیٹے۔ یہ وہی جائیدادیں ہیں جو انہوں نے اپنا بچپن مار کر بنائیں تھیں۔
آہوجا نے اپنے بچپن کی دکھ بھری داستان بھی میڈیا کو بتائی کہ 12 سال کی عمر میں وہ پشاور چھوڑ کر پٹیالہ آگئے پھر تھوڑے ہی عرصے میں یہاں سے امرتسر منتقل ہوگئے۔ یہاں بھی زیادہ عرصہ نہ رہ سکے اور دوبارہ پٹیالہ چلےگئے۔
پٹیالہ میں روزانہ تین میل کا پیدل سفر طے کرکے یہ اسٹیشن پہنچتے تھے جہاں وہ نمکین دال بیچا کرتے تھے جس کے انہیں نہایت کم پیسے ملتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ کبھی اسکو ل نہیں گئے جبکہ وہ اسکول کے تمام اخراجات برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اسکول نہ جانے کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ ان کے والد انہیں اسکول جانے پر مارتے تھے اور اسکول میں ان کو اس بات پر مار کھانی پڑتی تھی کہ انہوں نے کام مکمل کیوں نہیں کیا۔ اس کشمکش میں مبتلا انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اسکول ہی نہیں جائیں گے۔
درد بھری آواز میں انہوں نے مزید کہا کہ ’ان کا بچپن انتہائی خوفناک تھا ۔‘
21 سال کی عمر میں وہ گھر والوں سے الگ ہوکر چندی گڑھ آگئے اور نئے سرے سے پھلوں کا کاروبار شروع کیا۔ 1965 میں انہوں نے اپنا پہلا گھر خریدا اور اس طرح ان کی کامیابی کا سفر چلتا چلا گیا۔
آہوجا نے پہلی مرتبہ اپنے بیٹے کی آٹھویں سالگرہ پرغریب بچوں کے لیےلنگر کا اہتمام کیا۔ کھانے کے وقت انہوں نے بچوں کے چہرے پرجو خوشی دیکھی اس نے انہیں اپنا بچپن یاد دلا دیا اور تب ہی انہوں نے اعلان کیا کہ’یہ لنگر روزانہ بانٹیں گے‘ اور اس طرح سے ’لنگر بابا‘ اور ان کے ’لنگر‘ کا آغاز ہوا۔
کومل زیدی
یہ چندی گڑھ کے رہائشی 83 سالہ’ جگدیش لال آہوجا‘ہیں جنہوں نےاپنے بچپن کی قربانی صرف اس لیے دی کہ ان کے شہر کا کوئی فرد بھوکا پیٹ نہ سوئے۔
بھارتی اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’ان کے بچپن کے بارے میں سوال نہ کیا جائے، وہ وقت اتنا تکلیف دہ ہے کہ وہ دوبارہ اس کو یاد بھی نہیں کرنا چاہتے۔‘
جگدیش آہوجا پشاور میں پیدا ہوئے اور جس وقت پاکستان معرض وجود میں آیا، ان کی عمر 12 سال تھی۔ انہوں نے بچپن سے ہی سخت محنت کی۔ ان کا نظریہ، یہ تھا کہ جو کچھ بھی اکٹھا کریں یا جائیداد بنائیں اس کی آمدنی سے غریبوں کاپیٹ بھرسکیں۔
جگدیش آہوجا کی جانب سے روزانہ غربیوں کو کھانا کھلانےکا عمل تین دہائیوں سے جاری ہے۔ اسی خوبی کے سبب وہ پورے شہر میں ’لنگر بابا‘ کے نام سے پکارے جانے لگے۔
بھارتی اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے آہوجا کا کہنا تھا کہ انہوں نے 1981میں غریبوں کا کھانا کھلانے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ پھر 2001میں انہوں نےایک لنگر سینٹر کا باقاعدہ آغاز کیا جہاں اب بھی ہر روز غریبوں کو روزانہ کھانا کھلایا جاتا ہے۔
اس سلسلے کو قائم رکھنے کے لیے آہوجا نے اپنی تمام جائیداد ایک ایک کر کے بیچنا شروع کردی تاکہ کوئی بھی انسان خالی پیٹ اپنے بستر پر نہ لیٹے۔ یہ وہی جائیدادیں ہیں جو انہوں نے اپنا بچپن مار کر بنائیں تھیں۔
آہوجا نے اپنے بچپن کی دکھ بھری داستان بھی میڈیا کو بتائی کہ 12 سال کی عمر میں وہ پشاور چھوڑ کر پٹیالہ آگئے پھر تھوڑے ہی عرصے میں یہاں سے امرتسر منتقل ہوگئے۔ یہاں بھی زیادہ عرصہ نہ رہ سکے اور دوبارہ پٹیالہ چلےگئے۔
پٹیالہ میں روزانہ تین میل کا پیدل سفر طے کرکے یہ اسٹیشن پہنچتے تھے جہاں وہ نمکین دال بیچا کرتے تھے جس کے انہیں نہایت کم پیسے ملتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ کبھی اسکو ل نہیں گئے جبکہ وہ اسکول کے تمام اخراجات برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اسکول نہ جانے کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ ان کے والد انہیں اسکول جانے پر مارتے تھے اور اسکول میں ان کو اس بات پر مار کھانی پڑتی تھی کہ انہوں نے کام مکمل کیوں نہیں کیا۔ اس کشمکش میں مبتلا انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اسکول ہی نہیں جائیں گے۔
درد بھری آواز میں انہوں نے مزید کہا کہ ’ان کا بچپن انتہائی خوفناک تھا ۔‘
21 سال کی عمر میں وہ گھر والوں سے الگ ہوکر چندی گڑھ آگئے اور نئے سرے سے پھلوں کا کاروبار شروع کیا۔ 1965 میں انہوں نے اپنا پہلا گھر خریدا اور اس طرح ان کی کامیابی کا سفر چلتا چلا گیا۔
آہوجا نے پہلی مرتبہ اپنے بیٹے کی آٹھویں سالگرہ پرغریب بچوں کے لیےلنگر کا اہتمام کیا۔ کھانے کے وقت انہوں نے بچوں کے چہرے پرجو خوشی دیکھی اس نے انہیں اپنا بچپن یاد دلا دیا اور تب ہی انہوں نے اعلان کیا کہ’یہ لنگر روزانہ بانٹیں گے‘ اور اس طرح سے ’لنگر بابا‘ اور ان کے ’لنگر‘ کا آغاز ہوا۔
کومل زیدی